عقیل سے عقیل اورفہیم سے فہیم مسلمان چاہے وہ جتنا بھی پڑھا لکھاہو اگر اتباع شریعت سے عاری ہوتا تو آپ کی نظرمیں اس کی نہ کوئی وقعت ہوتی اور نہ عزت واحترام آپ کے نزدیک ایک جاہل اور کم عقل مسلمان جس کے دل میں ایمان ویقین ہو اور وہ اس پر عامل ہو اس ذکی وعاقل عالم وفاضل مسلمان سے جس کے دل میں اتباع شریعت کا جذبہ اور عملی احترام نہ ہو بہتر ہوتا۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں پہلے اپنے ایمان ویقین کی گواہی دیتے ہیں اورپھر دوسروں کے لیے اس کو ضروری قرار دیتے ہیں اور ان کی ترقی وفلاح کا ذریعہ اتباع شریعت کو بتاتے ہیں آپ تحریر کرتے ہیںـ:
’’میں بحمداللہ پکا مسلمان ہوں اور کفر وکفار کے متعلق وہی خیالات رکھتا ہوں جو ہر پکے مسلمان کو رکھنے چاہئیں، میرے نزدیک سب سے اول مسلمانوں کے لیے ہر حالت میں شریعت کااعتقادی وعملی احترام ہے محض زبانی احترام کافی نہیں۔ مسلمانوں کی دنیوی ترقی وفلاح کاذریعہ بھی کامل اتباع شریعت ہی ہوسکتا ہے جب تک اتباع کی روح مسلمانوں میں بالاتفاق پورے طور پر موجود نہیں ہوگی اس وقت تک مسلمان دنیوی مصائب وآلام سے نجات نہیں پاسکتے۔‘‘ (اکابر کے خطوط)
عقل انسانی یااتباع شریعت:
موجودہ دور کا سب سے بڑا مرض یہ ہے کہ اسلام اور شریعت اسلامی کو عقل انسانی کے تابع کردیا گیا ہے اور دین کو زندگی کے مسائل میں دخیل ہونے نہیں دیاجاتا۔ بعض رہنما اور رہبر صفائی کے ساتھ کہتے ہیں کہ دین ایک فرسودہ نظام ہے جس کے یہاں جدید مسائل کا جو آئے دن بدلتے رہتے ہیں کوئی حل نہیں ضرورت ہے کہ دین خصوصا دین اسلام کو زمانے کے مسائل سے ہم آہنگ کیا جائے اسی میں موجودہ دور کے مسلمانوں کی ترقی کا راز پنہاں ہے اگراسلام کو جدید نہ بنایا گیا اور زمانہ کالحاظ رکھ کر اس کو پیش نہ کیا گیا تو مسلمانوں کے لیے ترقی کی راہیں مسدود ہوں گی۔حضرت مولانا اس طرزِ فکر کے مخالف تھے وہ عقل انسانی اور نئے نئے پیدا ہونے والے اور بدلتے ہوئے مسائل کو شریعت اسلامی کے تابع کرنے کے داعی تھے ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مشکلات کاحل اور مصائب سے نجات بلا چوں وچرا اتباع شریعت میں ہے اللہ ورسول کے احکام اور قرآن وحدیث عقل انسانی کے تابع نہیں بلکہ بڑے سے بڑا ذہین اور دانائے روزگار بھی احکام شریعت کی اتباع کامحتاج ہے اور اسی اتباع میں دنیا وآخرت کی فلاح اور اس کے خلاف کرنے میں ناکامیاں اور خسران لازمی ہے خصوصا مسلمانوں کے لیے یہ دستور العمل ہے جو قیامت تک کے لیے ہرحالت میں ہر ملک میں ہر زمانہ میں صحیفۂ کامیابی اور ذریعہ فوز وفلاح ہے آپ صاف صاف فرماتے ہیں:
’’اگر دنیاوی مصائب دور کرنے کے لیے اتباع شریعت سے غافل ہوکر عقل انسانی پر اعتماد کیا گیا تو یقینا مسلمانوں کے لیے ناکامیاں اور غیر متوقع مشکلات وتکالیف رونما ہوں گی۔‘‘(اکابر کے خطوط)
اورآگے چل کر اس خیال پر ان الفاظ کے ساتھ زور دیتے ہیں:
’’اگر پابندی اسلام نظرانداز کرکے دنیوی بہبودی کی تدبیریں کی گئیں تو فتن کو اور ترقی ہوگی اور مسلمانوں کے لیے بدترین مصائب اور غیر متوقع آلام پیدا ہوں گے ہمارے لیے صحیح راستہ وہی ہے جس کی مذہب ہدایت کرے۔‘‘(اکابرکے خطوط)