قلب میں راسخ ہوجائے ورنہ آخر میں ایک بے کیف حضور رہ جاتا ہے جس کو نسبت سلسلہ کہتے ہیں۔‘‘
پاکی اورطہارت:
’’سالک کو پاکی اور طہارت کا بہت خیال رکھنا چاہئے بلکہ ہمیشہ باوضو رہنا چاہئے کہ سونا بھی باوضو ہو۔‘‘
تصور شیخ کی مطلق ضرورت نہیں:
’’اس میں مطلق تکلف اور آور دمضر ہے جب مرید کو شیخ کے واسطہ سے استفادہ ہوگا تو خود اس کی محبت سالک کے قلب میں پیدا ہوجائے گی اور جب محبت ہوگی تو شیخ کا تصور و خیال خود آئے گا،اصل شے جس کا نفع ہے وہ محبت ہے اور تصور اس کا فرع غیر اختیاری ورنہ محض تصور بجائے مفید ہونے کے بسا اوقات مضر ہوتا ہے۔‘‘
تہجد کا اہتمام:
’’تہجد کی نفلوں کا اہتمام بہت زیادہ کرنا چاہئے کہ شعار صالحین ہے اور روحانیت کے لئے بیحد مفید ۔اگر شب میں فوت ہوجاویں تو بعد طلوع آفتاب بارہ رکعت ادا کرے اورتہجد کے وقت اٹھنے کااطمینان ہو تو وتر بعد نوافل تہجد اداکرے ورنہ بعد عشاء مگر رمضان میں بعد تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنے چاہیئں اور دنوں میں ان کو جماعت کے ساتھ ادا نہ کرے۔‘‘
دل و دماغ کی صحت کا خیال بھی ضروری ہے:
’’سالک کو اپنے دل اور دماغ کی صحت کا زیادہ خیال کرنا چاہئے کہ ان کو تقویت پہونچانا بہ نیت تقویت فی العبادت خود عبادت ہے اور اس کی طرف توجہ نہ کرنے سے انسان نہ دنیا کے کام کا رہتا ہے نہ دین کے کام کا ۔‘‘
صحابہ کرام کے حالات سے مطابقت:
’’کیفیات و حالات ہر سالک کو پیش آتے ہیں مگر جس قدر زیادہ صحابہ کرامؓ کے حالات سے مطابقت ہوگی اتنے ہی مامون ہوںگے اور جتنی دوری ہوگی اسی قدر پر خطر اور سلامتی سے دور ہوں گے۔‘‘
علم مورث عمل ہے:
’’علم کی فضیلت اسی لئے ہے کہ وہ مورث عمل ہے اور عمل اس لئے مطلوب ہے کہ وہ مورث حال ہے اگر حال نصیب نہ ہوا تو نہ عمل مفید کہ منافقین بھی کرتے بلکہ مسلمانوں سے زیادہ کرتے تھے اور نہ علم مفید کہ آخر شیطان کو بہت کچھ نصیب تھا اور حدیث میں ہے کہ عالم بے عمل دوزخ میں جائے گا کہ اس کی آنتیں چکی کی طرح اس کے گرد گھومیں گی۔‘‘
علوم دینیہ کی تدریس بھی طرق وصول الی اﷲ سے ہے: