چیخیں نکل گئیں اور آخر شب بہت شدت سے روتے رہے اور حضرت قدس سرہٗ پر بھی اس کا اثر ایسا پڑا کہ آوازمیں گھر گھراہٹ پیدا ہوگئی اور دونوں حضرات پر بہت ہی زیادہ اثر تھا۔
(مقدمہ کمال الشیم:۵)
مولانا عبداﷲ صاحب کو اپنے استاذو مربی مولانا محمد یحیٰ صاحب کاندھلوی سے حد درجہ محبت تھی اس لئے کہ مولانا کاندھلوی ہی ان کے دینی کمالات اور علمی فضیلت کا سبب بنے تھے ان کے بعد ان کے گرامی قدرومنزلت فرزند رشید حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث مدظلہٗ العالی سے بھی انتہائی محبت تھی انتقال سے کچھ دن پہلے فرمانے لگے۔
’’مولوی زکریا صاحب نے ایک خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر بتاؤ خواب یہ ہے کہ آسمان سے ایک بڑا انار گرا اور زمین پر گرتے ہی اس کے سب دانے جدا جدا ہوگئے مولانا محمد یحیٰ صاحب تشریف رکھتے تھے اور فرمارہے تھے بھئی اس دانہ میں ایک دانی میرابھی ہے۔‘‘
(مقدمہ کمال الشیم:۵)
مولانا محمدزکریا صاحب شیخ الحدیث مدظلہ نے فرمایا کہ مجھے تعبیر دینا نہیں آتی تو مولانا عبداﷲ صاحب بولے اچھا میں ہی بتاؤں تعبیر۔
’’وہ دانہ میں ہوں میں تو آخر مولوی صاحب کاہوں ہی اور یہ بشارت ہے میری موت اور مغفرت کی ۔(مقدمہ کمال الشیم:۵)
چنانچہ اس خواب کے چند ماہ بعد ہی اسی سال مولانا کا مرض دق میں وصال ہوگیا۔اللّٰہم اغفر لہ وارحمہ۔
مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی :
مولانا ۵ رجب ۱۲۹۸ھ مطابق ۳ِجون ۱۸۸۱ء کوپیدا ہوئے ابتدائی اردو تعلیم کے بعد سات سال کی عمر میں عربی شروع کی اس کے بعد انگریزی پڑھی ۱۳سال کی عمر میں باقاعدہ عربی تعلیم حاصل کرنی شروع کی ۱۴ سال کی عمر میں کتب صحاح سے فراغت حاصل کرلی ۱۳۱۰ھ میں لاہور سے مولوی فاضل کیا ۱۳۱۶ھ میں جبکہ ان کی عمر ۱۸ سال کی تھی گنگوہ جاکر حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی سے بیعت ہوئے ۔۱۳۱۷ھ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مدرس ہوئے لیکن چند ماہ کے بعد اپنے وطن میرٹھ واپس آگئے پریس کھولا اور تصنیف و تالیف وتراجم کا کام شروع کیا۔۱۳۲۱ھ میں حج کو گئے ۱۳۲۳ھ میں دوسرا حج کیا ۔۱۳۲۸ھ میں تیسرا حج کیا اور اس مرتبہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری کی ہمرکابی نصیب ہوئی اس کے بعد شام و فلسطین کا دورہ کیا ۔۱۳۴۱ھ میں چوتھا حج کیا اور ۱۳۴۳ھ میں پانچواں اور ۱۳۴۴ھ میں مدرسہ مظاہر علوم کی سرپرست بنائے گئے اس مدرسہ کا کام پورے انہماک سے کیا ۱۳۴۸ھ میں چھٹا حج کیا۔
حضرت شیخ الحدیث فرماتے ہیں۔
’’مولانا انتہائی ذکی،انتہائی مدبر،ظریف ،خوش مزاج تھے لیکن منکرات پر بہت زیادہ غصّہ آجاتا جو بسا اوقات سخت کلامی تک پہنچ جاتا اول حضرت اقدس گنگوہی سے بیعت حاصل کی تھی،حضرت قدس سرہٗ کے وصال کے بعد حضرت اقدس مولانا خلیل احمد صاحب