صرف اپنے لئے بلکہ سب کے لئے ہر درد کی دوا ہر مرض کا علاج ہر زخم کا مرہم ہر ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہر گمراہ کی ہدایت کا سامان سمجھتے تھے۔
آپ قرآن کریم کی ظاہری شکل وصورت اس کے الفاظ اور الفاظ کی حرکات وسکنات اور اس کی تلاوت کو بھی اہم سمجھتے تھے اور اس کے اصول وآداب، عظمت وجلال اس پر غوروفکر کے بھی قائل اور اس کے احکام واوامر کو اپنانے اور منہیات سے بچنے کی دعوت دیتے تھے۔ ظاہری ادب ولحاظ نیز تجوید اور قواعد کو اہمیت دینے میں آپ کا حال یہ تھا کہ ہمیشہ قراء کو امامت کے لئے پسند فرماتے اور قرأت میں کوئی کوتاہی دیکھتے تو متنبہ فرماتے ایک مرتبہ مولانا ظفراحمد صاحب تھانوی سے جو عالم بھی تھے اور قاری بھی ارشاد فرمایا:
’’مولوی ظفر تم مد میں کمی کرتے ہو ذرا اور بڑھایا کرو۔‘‘
ایک مرتبہ فرمایا:
’’تم کبھی توضاد کو صحیح نکالتے ہو جس سے معلوم ہوتاہے کہ صحیح مخرج پر قادر ہو اور کبھی ضاد مفخم پڑھتے ہو یہ کیا واہیات ہے جب قادر علی المخرج ہو تو اس کو ہمیشہ صحیح کیوں نہیںنکلاتے اس کی پوری طرح مشق کرو۔‘‘
اسی طرح آپ کو اس کا اہتمام رہتا تھا کہ وصل یا وقف پر بھی توجہ دی جائے اور اس کے جو طریقے سلف سے ثابت ہیں ان پر عمل کیاجائے آپ فرمایا کرتے تھے:
’’آج کل قراء اس کی رعایت نہیں کرتے مگر خیروبرکت اتباع سلف میں ہے۔‘‘
قرآن شریف پر غوروخوض اور فکرو تدبر کا حال یہ تھا کہ جب بھی عذاب کی آیت آتی آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا آنکھیں نم اور دل خوف وخشیت سے لبریز ہوجاتا اور جب ثواب یا انعام کی آیت آتی یا جنت یا اہل جنت کا ذکرآتا تو خوشی ومسرت اور طلب وخواہش سے رواں رواں جھوم اٹھتا اور آپ سراپا ذوق وشوق اور کیف ومستی بن جاتے، ایسے وقت آپ کی کیف ومستی اور ذوق وشوق دیکھنے کے قابل ہوتا۔
علم سے زیادہ عشق ومحبت:
آپ علم سے زیادہ عشق ومحبت کے قائل تھے یہی آپ کی وہ متاع گرانمایہ تھی جس نے آپ کی پوری زندگی کو درد وسوزاور کیف وسرور کی دولت سے مالامال کردیاتھا۔
کہتے ہیں کہ حضرت مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک روز مولانا محمد علی صاحب مونگیری سے فرمایا، تم نے کوئی عشق کی بھی دوکان دیکھی ہے؟ مولانا محمد علی نے سکوت کیا، آپ نے فرمایا ہم نے دو دوکانیں دیکھی ہیں ، ایک شاہ غلام علی صاحب کی اور دوسری حضرت شاہ آفاق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی کہ اس دوکان میں عشق کا سودا بکا کرتا تھا۔
(فضل رحمانی حصہ دوم :۲۹)