حضرت مولانا کی طرف اپنے،نجذاب اور کشش کی کیفیت اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
’’احقر کو اموراجتہادیہ ،ذوقیہ ،متعلقہ،معاشرت و انتظام میں رائے کا اختلاف تھا اور اس اختلاف کے ہوتے ہوئے میرا یہ خیال تھا کہ مجھ کو مولانا سے صرف اعتقاد عقلی ہوسکتا ہے ،نجذاب طبعی نہ ہوگا مگر کیفیت یہ تھی کہ حاضری تو حاضری تصور کرنے سے اس قدر انجذاب ہوتا تھا کہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا اور غالباً اسی کا اثر ہوگا کہ خواب میں کبھی زیارت ہوتی تو اسی شان سے ہوتی یہ کھلی دلیل ہے محبوبیت کی کہ محب کو گمان بھی نہیں بلکہ احتمال عدم کا ہے مگر طبیعت ہے کھنچی چلی جاتی ہے اور میں اسکو اﷲ تعالیٰ کا فضل اور رحمت اپنے اوپر سمجھتا ہوں کہ اس اختلاف کے ضرر سے مجھ کو محفوظ رکھا۔‘‘
(تذکرۃ الخلیل:۳۵۳)
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی :
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اﷲ علیہ اگر چہ عمر میں ۲۷ سال چھوٹے تھے اور ایک لحاظ سے حضرت مولانا کے شاگرد بھی تھے مگر ایک ہی شیخ کے مرید اور اجازت یافتہ تھے یعنی حضرت گنگوہی کے اجلہ خلفاء میں حضرت مولانا بھی تھے بلکہ سابقین اولین میں تھے اور انھیں سے مولانا محمد حسین احمد صاحب مدنی بھی بیعت اور مجاز تھے ان رشتوں کی بناء پر حضرت مدنی حضرت مولانا کا بڑا ادب و احترام فرماتے تھے اور اطاعت و انقیاد میں سب سے آگے رہتے تھے،حضرت مدنی ۱۳۰۹ھ میں دیوبند تشریف لے گئے اور اسی سال شیخ الہند نے حضرت مولانا کے حلقہ درس میں ان کو بٹھایا اور خود تو حدیث پڑھائی اور حضرت مولانا نے دوسری بعض کتا بیں ،اس کے علاوہ حضرت مدنی اپنے شفیق استاذ و مربی حضرت شیخ الہند کو دیکھتے تھے کہ وہ حضرت مولانا کا نہ صرف خیال کرتے ہیں بلکہ بے تکلف دوستوں اور ہر طرح کے اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے ہیں اس لئے ان کے دل میں بھی حضرت مولانا کی وہ عظمت پیدا ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی ،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں۔
’’میں نے بار ہا دیکھا جب حضرت مدنی قدس سرہ کی آمد حضرت مرشدی سیدی قدس سرہٗ کی خدمت میں ایسے وقت ہوتی جب حضرت کا درس جاری ہوتا تو بہت خاموشی سے آکر قاری کے برابر بیٹھ جاتے نہ سلام ،نہ مصافحہ ،نہ ملاقات اور جب قاری حدیث ختم کرتا تو اس کو اشارہ سے روک کہ خود حدیث کی قرأت شروع کردیتے ،اس سے میرے حضرت کو حضرت مدنی کی آمد کا حال معلوم ہوجاتا اور سبق کے ختم پر سلام اور مصافحہ وغیرہ ہواکرتا اﷲ جل شانہٗ اس سیہ کار کو بھی حسن ادب کی توفیق عطا فرمائے جب حضرت (مدنی)کراچی جیل سے تشریف لائے ،اس وقت کا منظر ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رہے گا حضرت مرشدی قدس سرہٗ مکان تشریف لے جارہے تھے اور حضرت مدنی اسٹیشن سے تشریف لارہے تھے مدرسہ کی قدیم مسجد کے دروازے پر آمنا سامنا ہوا حضرت مدنی قدس سرہ مرشدی قدس سرہ کے ایک دم قدموں میں گر پڑے حضرت سہارنپوری نے جلدی سے پاؤں پیچھے کو ہٹا کر سینہ سے لگا لیا اور طرفین کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے۔‘‘
(آپ بیتی ۴/۱۱۳،۱۱۴)