-2 کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد سے بیہقی نقل ہوکر گنگوہ آئی تو آپ نے خاص طور پر اس کو گنگوہ سے منگواکر اس کی آٹھ جلدیں منجملہ دس جلدوںکے نقل کرائیں۔
-3 مصنف ابن ابی شیبہ سندھ میں کسی صاحب علم کے پاس قلمی موجودتھی۔ آپ کو اس کاکسی طرح علم ہوا تو اس کو منگواکر نقل کروایا۔
غرضیکہ علم حدیث اور فن رجال سے آپ کو انتہائی عشق تھا اور اس علم وفن کی کتابوں کو خوب ہی جمع فرمایا تھا مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی تحریر کرتے ہیں:
’’جس طرح درس حدیث اور تالیف شروح احادیث کا آپ کو شغف تھا اسی طرح حدیث کی قلمی ونایاب نسخوں کے محفوظ کرنے کا بھی حددرجہ شوق تھا کہ یہ ثمرہ ہے صاحب جوامع الکلم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صادقہ کا جس میں آپ فنا تھے اور چاہتے تھے کہ سرور عام وعالمیاں کا کوئی قول یا فعل بھی ایسا نہ ہورہے جس کے علم وعمل سے محروم رہوں اور اس کے ساتھ ہی ا س کی اشاعت کا عشق تھا کہ تمامی امت محمدیہ تک پہنچ کر اس کا نفع متعدی ہو اور مختلف مقامات کے صدہا کتب خانوں میں جمع ہوکر اضاعت سے ہر طرح محفوظ ہوجائے مجنون صحرا میں بیٹھ کر بھی انگلیوں سے ریت پر لیلیٰ کانام لکھا کرتاتھا کہ اسی سے اس کی طبیعت کو تسلی ہوتی تھی پھر کیا پوچھنا محبت رسول کا کہ کلام الرسول کی خدمت جس نوع کی بھی ہو عین ثمرہ ایمان ہے۔‘‘
شرک وبدعت کے معاملے میں آپ کا سخت رویہ:
حضرت مولانا کا شرک وبدعت کے معاملہ میں جو رویہ اور طرز عمل رہا ہے وہ آپ کے کامیاب مناظروں اور براہین قاطعہ کی تصنیف وتالیف سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے اس معاملہ میں آپ نے کسی نرمی اور چشم پوشی سے کام نہیں لیا آپ بلا خوف لومۃ لائم ہر ایسے موقع پر سیف بے نیام بن کر سامنے آئے اور اپنی زبان سے اپنے قلم سے اپنی تقریروں اور ارشادات سے اپنی تحریروں اور اپنے مکتوبات سے مقابلہ کیا مولوی عبدالسمیع صاحب بیدل نے جب انوار ساطعہ لکھی تو اس کا آپ نے براہین قاطعہ لکھ کر جواب دیا اس کتاب نے آگ پر تیل کاکام کیا ہندوستان کے ان تمام حلقوں میں ہلچل مچ گئی جو شرک وبدعت کے داعی یاحلقہ بگوش تھے انہوں نے عام اور جہلا کو آپ کے خلاف بھڑکایا۔حضرت سید الطائفہ حاجی امداداللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی طرف سے بدظن کرنے کی کوشش کی گئی لیکن آپ اس شوروغوغا کے بعد بھی کتاب وسنت کے لیے سینہ سپر اور بدعت وشرک کے حق میں تیغ جوہر دار بنے رہے اور آپ نے اس بارے میں مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کے نقش قدم پر چل کراحیائے سنت کا مشغلہ رکھا اور اپنی زندگی کے عزیز ترین لمحات اور محبوب ترین اوقات صرف کیے اور جس طرح مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ تعالیٰ باوجود راہ حق میں شہید ہونے کے اہل بدعت کے طعن وتشنیع سے اس وقت تک محفوظ نہ رہے اسی طرح آپ بھی کافرساز زبانوں سے محفوظ نہیں۔
حضرت مولانا اس بارے میں بڑے ذکی الحسن تھے وہ کسی حال میں شرک وبدعت کے ادنیٰ روادار نہ تھے نہ اپنے منتسبین اور