ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
نہ دنیا پرستی نہ رہبانیت:
حضرت مولانا کے احساسات وخیالات اور آپ کی تعلیم وتربیت سے یہ بات پوری طرح صاف ہوجاتی ہے کہ آپ نہ دنیا میں انہماک کے قائل تھے نہ دنیا سے دامن چھوڑنے اور نہ اس سے اجتناب کے، جن لوگوں کو آپ دیکھتے کہ وہ دنیا میں منہمک ہیں اور دین سے ان کو وہ تعلق نہیں جو ہونا چاہیے تو ان کی آپ حکمت وموعظت کے ساتھ دین کی طرف لانے اور خدا ورسول کی محبت ان کے دلوں میں بٹھانے کی کوشش فرماتے تھے اپنے سے قریب کرتے اور جن کو دیکھتے کہ وہ دین کے کاموں میں اتنے منہمک ہوچکے ہیں کہ دنیا کے دوسرے معاملات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تو اس پر نکیر فرماتے اور رہبانیت سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرکے ہر چیز میں اعتدال وتوازن پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے، ایک صاحب ذکروشغل میں اتنے زیادہ منہمک اور مشغول ہوگئے تھے کہ ان کا دل دنیا کے بکھیروں سے گھبرا گیا تھا اور ان کی خلوت نشینی اتنی بڑھ گئی کہ کسی سے کوئی مطلب اور واسطہ رکھنے سے پہلے تہی کرنے لگے تو آپ نے اس پر نکیر فرماتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’دنیا میں رہ کر تارک الدنیا ہونا یہ ناممکن ہے البتہ دنیا کو دین کے لیے صرف کرو اور اپنے اہل وعیال کی خبر گیری اور اہل حقوق کے حقوق کی ادائیگی محض خدا وند تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کرتے رہو۔‘‘
حضرت مولانا اس بارے میں یہاں تک معمول رکھتے کہ کسی کو اس کی بھی اجازت نہ دیتے کہ جوش میں آکر وہ اپنی روزی کاذریعہ جیسے ملازمت وغیرہ چھوڑے کتنے ایسے آپ کے مریدین تھے جنہوںنے یکسوئی اختیار کرنی چاہی اور ملازمت چھوڑنے کاارادہ کیا آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے سختی سے روکا مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی لکھتے ہیں:
’’لگی ہوئی ملازمت ترک کرنا آپ کو بالکل پسند نہ تھا اور کبھی اجازت نہ دیتے تھے کہ خود کوئی ملازمت یا سلسلہ معاش چھوڑے کہ کفران نعمت ہے اور اس کے وبال میں آدمی بہت پریشان ہوتاہے کہ ذکروشغل تو کیا نماز بھی اطمینان سے نصیب نہیں ہوتی پراگندہ روزی پراگندہ دل۔‘‘
اسی طرح آپ اس کو بھی پسندنہ فرماتے کہ آدمی ہر وقت منہ سکھائے آنکھیں چڑھائے متقشف بنا بیٹھا رہے جیسے لڑنے کو تیار ہے لوگ اس سے ملتے ہوئے گھبرائیں اور بات کرتے ہوئے ڈریں آپ مزاح کے بھی قائل تھے پرلطف باتیں کرنے کو بھی برا نہیںجانتے تھے خود آپ کا عمل بھی اس پر تھا کہ بعض دفعہ بہت بے تکلف ہوجاتے ہنستے ہنساتے قصے سناتے آپ کی مجلس خشک نہیں ہوتی تھی بلکہ زعفران زار ہوتی تھی جوبھی آپ کی مجلس میں شریک ہوتا لطف لیتا مانوس ہوتا اور فائدہ اٹھاتا۔
ظاہر ہو یا باطن شریعت کی اتباع ضروری ہے:
حضرت مولانا کے نزدیک اصل اتباع شریعت ہے خواہ ظاہری اعمال ہوں یا باطنی ان سب کو خدا ورسول کے احکام کی روشنی میں کرنا چاہیے یہ عدم توازن کی بات ہے کہ ایک طرف زیادہ توجہ ہو دوسری طرف کم ہو۔ آپ اس معاملہ میں سختی فرماتے اور بار بار