کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حدیث اور صاحب حدیث علیہ الصلاۃ والتسلیم سے جو محبت اور تعلق عطا کیا تھا اس کا ثبوت آپ کے ان الفاظ سے ہوتاہے:
’’میں نے حق تعالیٰ سے تین دعائیں کی تھیں:
-1 عرب میں حکومت اسلامی دیکھ لوں۔
-2 بذل المجہود تمام ہوجائے۔
-3 بقیع میں دفن ہوجاؤں، الحمدللہ دو کی قبولیت دیکھ لی اور تیسری کا انتظار ہے۔‘‘
حضرت مولانا نے دو کی قبولیت تو اپنی آنکھوں سے دیکھی اور تیسری کا جو انتظار تھا وہ ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۴۶ھ کو دوسروں نے دیکھی کہ آپ نے جوار نبی میں جان جان آفریں کے سپرد کی اور بقیع پاک میں اہل بیت کے پڑوس میں سپرد خاک ہوئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کاحال یہ تھاکہ زیارت کی فضیلت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’زیارت قبر سیدالمرسلین ہماری جان آپ پر قربان اعلیٰ درجہ کی قربت اور نہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے بلکہ واجب کے قریب ہے گوشدرحال اور بذل جان ومال سے نصیب ہو اور سفر کے وقت آپ کی زیارت کی نیت کرلے اور ساتھ میں مسجد نبوی اور دیگر مقامات وزیارت گاہ متبرکہ کی بھی نیت کرلے بلکہ بہتر یہ ہے کہ جو علامہ ابن ہمام نے فرمایا ہے کہ خالص قبر شریف کی زیارت کی نیت کرے پھر جب وہاں حاضر ہوگا تومسجد نبوی کی بھی زیارت حاصل ہوجائے گی اس صورت میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم زیادہ ہے اور اس کی موافقت خود حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ہورہی ہے کہ جو میری زیارت کو آیا میری زیارت کے سوا کوئی حاجت اس کو نہ لائی ہو تو مجھ پر حق ہے کہ میں قیامت کے دن اس کا شفیع بنوں اور ایسا ہی عارف ملاجامی سے منقول ہے کہ انہوں نے زیارت کے لئے حج سے علیحدہ سفر کیا اور یہی طرز مذہب عشاق سے زیادہ قریب ہے۔‘‘ (المنہد:۵)
حدیث نبوی میں آپ کے شغف اور انہماک ودلچسپی کا حال یہ تھا کہ جہاں بھی حدیث کی کسی قلمی کتاب کا پتہ چلتا تو آپ ہر قیمت پر اس کی نقل کرواتے یا اس کو خریدتے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔
جمادے چند دادم جاں خریدم
بحمداللہ بس ارزاں خریدم
آپ کی اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ حدیث کی نایاب ونادر کتابوں کی اشاعت ہوئی اور وہ ضائع ہونے سے بچ گئیں۔ مثال کے طورپر آپ کی چند کوششوں کاذکر کیاجاتاہے:
-1 مصنف عبدالرزاق کی جلد سوم وچہارم نقل کرائی اور بنفس نفیس خود اس کی تصحیح فرمائی۔