پیچھے بیٹھ کر اپنا سینہ مریض کاتکیہ بناتے اور اس کی کمر چھاتی سے لگا کر بیٹھ جاتے ماں سے جس نے دن بھر کا تعب اٹھایا تھا فرماتے جاؤ چارپائی پر ذرا کمر سیدھی کرلو چنانچہ وہ لیٹ رہتیں مگر نیند کس کو آتی پھر نصف شب گزرنے پر وہ آجاتیں اور حضرت سے کہتی تھیں کہ دن بھر کے تھکے ہوئے ہو ذرا تم بھی آرام کرلو چنانچہ وہ بیمار کو سہارا دے کر بیٹھ جاتیں اورچند منٹ کے لئے حضرت چارپائی پر لیٹ جاتے مگر اس حالت میں بھی حضرت کا تہجد اور تلاوت طویل کا معمول کبھی نہ چھوٹا اور اس وقت میں جبکہ ماں کا نمبر ہوتا آپ وقت معمول پر چارپائی سے اٹھ کر اپنے خدا کے سامنے حاضری دیا کرتے تھے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل)
مولانا عبدالغنی صاحب رسولوی جو حضرت مولانا کے شاگرد بھی ہیں،بیان کرتے ہیں:
’’آپ کے صاحبزادے ابراہیم بیمار تھے ،سبق ہورہا تھا گھر سے ان کے انتقال کی خبر آئی ہم لوگوں نے چاہا سبق بند کردیں فرمایا ’’سبق پورا کرلو‘‘اﷲ اﷲ یہ ادب یہ صبر۔‘‘
شفقت و رحمت :
جہاں حضرت مولانا اپنے بزرگوں ہم عمروں اور ملنے جلنے والوں کے ساتھ ادب و احترام اور حسن سلوک کا معاملہ فرماتے تھے اسی طرح اپنے چھوٹوں پر شفقت و رحمت بھی بہت فرماتے تھے چھوٹی لڑکیاں آپ کے پاس آتیں تو آپ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے پاس بٹھاتے، نام پوچھتے اور میٹھی میٹھی باتیں کرتے اگر ان میں کوئی غیراسلامی باتیں دیکھتے تو پیار و محبت سے ان کو سمجھا دیتے اگر ان کا لبا س غیر شرعی دیکھتے تو یہ فرماتے کہ تم نے یہ کیوں پہنا بلکہ اس طرح فرماتے یہ کپڑے تمھاری اماں نے پہنائے ہوں گے نا۔بری وضع ہے اماں سے کہو ہمیں مسلمانوں کے کپڑے پہناؤ۔پھر مٹھائی وغیرہ جو چیز ہوتی دیتے ۔اگر کسی عورت کو دیکھتے کے وہ اپنی اولاد کو کوس رہی ہے تو بہت ناگواری محسوس کرتے اور فرماتے زبان سے جب کوئی لفظ نکالو بدعا اگر پوری ہوگئی تو سر پکڑ کر روؤ گی۔
اگر وہ عورت یہ جواب دیتی کہ حضرت جب بچے بہت ستاتے ہیں تو زبان سے یہ سخت الفاظ نکل ہی جاتے ہیں تو آپ فرماتے تمھیں بھی تمھاری ماؤں نے پالا ہے وہ تم کو کوستیں تو آج نہ تم زندہ ہوتیں نہ اولاد کی صورت دیکھنا ہوتی اور موت و زندگی تو اﷲ کے اختیارمیں ہے۔
ایک واقعہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب تحریر فرماتے ہیں:
۴۴ ھ کے حج میں اعلی حضرت شاہ عبدالقادر صاحب نوراﷲ مرقدہ بھی تشریف فرما تھے اور امبالہ کے ایک بزرگ حضرت رائیپوری نوراﷲ مرقدہٗ کے مخلص اور میرے والد صاحب کے بھی مخلص اور ان دونوں کی وجہ سے اس سیہ کار پر بھی شفقتیں فرمایا کرتے تھے یعنی حافظ محمد صدیق صاحب انبانوی اس سفر میں ساتھ تھے ان کی بچی غالباً آٹھ سال کی عمر کی ہوگی مگر پنجاب کا نشو نما یوپی سے بڑھا ہوا رہتا ہے اور پنجاب میں پردہ کا رواج بہت ہی شاذو نادر ہے بالخصوص بچیوں کے حق میں وہ بچی اگر زندہ ہوتو اﷲ تعالیٰ اس کی ہر نوع کی مدد فرمائے دین و دنیا کی ترقیات سے نوازے مرگئی ہوتو اﷲ تعالیٰ مغفرت فرماکر اپنے جوار رحمت میں زیادہ سے زیادہ قرب عطا فرمائے