بیعت کے ان الفاظ کے بعد آپ بیعت ہونے والوں کو معمولات اور ذکر وشغل بتلاتے اور اوامر کی اتباع اور نواہی سے بچنے کی ہدایت کرتے۔
بیعت کے بعد کی ہدایات:
حضرت مولانا عام طور پر بیعت لینے کے بعد مختلف اوامر کی اتباع کی تلقین فرماتے تھے خصوصا نماز باجماعت کی پابندی اسلامی اور شرعی صورت بنانے بدت چھوڑنے اتباع شریعت کا لحاظ رکھنے کی تاکید کرتے اس کے بعد ہر نماز کے بعد کچھ وظیفہ پڑھنے کو بتاتے تھے مثلا فجر اور مغرب کے بعد سو سو مرتبہ کلمہ تمجید ظہر کے بعد لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم سو بار عصر کے بعد درود شریف تین سو بار عشاء کے بعد استغفار سو بار ہر نماز فرض کے بعد تسبیح فاطمہ روزانہ قرآن مجید کا ایک پارہ کی تلاوت اور حزب الاعظم کی ایک منزل کی ہدایت فرماتے اہل علم کے لئے تہجد اوابین کے ساتھ علم دین کی تعلیم یا کسی قسم کا اشتغال علم لازم قرار دیتے اور بہت سے حضرات کو بارہ تسبیح ذکر بالجہر یا اس کے مزاج کے مطابق کچھ وظیفہ بتلاتے۔
حضرت مولانا ہمیشہ طبائع کی رعایت فرماکر تعلیم دیا کرتے تھے، مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی تحریر کرتے ہیںـ:
’’حضرت کی تعلیم سالکین کی طبائع کی رعایت پر مختلف ہوتی تھی جو کسی ایک صورت میں محدود نہیں تھی اور اس کا مدار محض آپ کی خداقت تشخیص اور فہم خدادا پر تھا کہ کسی کو چشت کی تعلیم فرمائی اور کسی کو نقشبندیت کی کسی کو مراقبہ صمدیت تلقین فرمایا کسی کو مراقبہ معیت کسی سے ذکر کاکام زیادہ لیا کسی سے شغل کا کسی کو اور زیادہ تعلیم کے لیے کسی کو محض ایام بیض کے روزے اور تہجد واوابین واشراق کے نوافل مگر یہ مشترک سب میں ملحوظ رہتا تھا، کہ عادات میں اور احوال مختلفہ کی ادعیہ ماثورہ میں سنت کا اتباع اور خیال ودھیان ضرور رکھیں اورجادئہ شریعت سے چاول برابر بھی قدم نہ ہٹائیں، اور سالکین کے لئے تو تاکید تھی کہ صغیرہ گناہ کو بھی سانپ بچھو سمجھیں اور گنجائش چھوڑ کر عزیمت پر عمل کریں۔
(تذکرۃ الخلیل۴۲۶)
مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی جب حضرت مولانا سے بیعت ہوئے تو آپ نے مولانا ظفر احمد صاحب کو ذکروشغل کی جو تعلیم دی وہ ان کے علم وفضل اور حالات ومزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے دی مولانا خود اس تعلیم کا حال اس طرح ذکر کرتے ہیں:
’’آپ نے اپنے دست مبارک میں میرے ہاتھ لے کر حسب معمول بیعت فرمایا اور پھر دو سو بار ذکر نفی واثبات اور دوہزار مرتبہ اسم ذات کی تلقین فرمائی اور خود باقاعدہ کرکے دکھلایا کہ چار زانو بیٹھ کر آنکھیں بند کرکے لاالہ کو کامل مدکے ساتھ گردن کی دائیں طرف لے جاکر الااللہ قلب پر ہلکی ضرب کے ساتھ ختم کیا دو تین بار اس طرح کرکے دکھالایا اور فرمایا کہ مشائخ کا معمول یونہی ہے اور اسی طرح سکھاتے آئے ہیں اس طرح نفع زیادہ اورجلدی ہوتاہے اس کے بعد ذکر اسم ذات بھی خود کرکے دکھلایا اور پھرفرمایا کہ حصن حصین سے ادعیہ ماثورہ متعلقہ اوقات وحالات مختلفہ معلوم کرکے انکا بھی ورد کیاجائے اور چلتے پھرتے تسبیح ہاتھ میں رکھ کر پاس میں ہو کا تصور کیاجائے یہ بہت مثمر انوار وبرکات ہے نیز ذکر اسم ذات میںیہ تصور کیاجائے کہ لفظ اللہ کے ساتھ نور منہ سے نکلتاہے جو