ہے۔ ہمارے خیال میں علماء متقدمین اور اذکاء متبحرین میںکسی کا ذہن اس میدان کے نواح تک نہیں گھوما ہاں ہندوستان کے بدعتیوں کے نزدیک کفروضلال بن گیا یہ مبتدعین اپنے چیلوں اور تابعین کو یہ وسوسہ دلاتے ہیں کہ یہ تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کاانکار ہے افسوس صد افسوس قسم ہے اپنی زندگی کی کہ ایسا کہنا پلے درجہ کا افترا اور بڑا جھوٹ وبہتان ہے جس کاباعث محض کینہ وعداوت وبغض ہے اہل اللہ اور ان کے خاص بندوں کے ساتھ اور سنت اللہ جاری ہے انبیاء والیاء کے ساتھ۔(المنہد علی المفند)
مذہبی تعلیم ہرحالت میں اہم اورضروری ہے:
ہندوستان میں خلافت کا چرچا تھا تو باہمی اتحاد اور برادران وطن سے موالات کا ایسا چکر چلا کہ بعض پڑھے لکھے حضرات بھی انتہاپسندی کاایسے شکار ہوئے کہ کسی ایسے کام کے کرنے اور کسی ایسے خیال کے اپنانے سے اتنی احتیاط کرنے لگے کہ برادران وطن سے موالات کے جذبے کو ذرا بھی ٹھیس نہ پہنچے اور ان کا دل ہمارے کسی عمل سے ملول نہ ہو ان کی انتہا پسندی اتنی بڑھ گئی کہ مذہبی تعلیم سے بھی کنارہ کیا جانے لگا دینی مدارس اور اسلامی مکاتب کوبھی فرقہ وارانہ اورجذبہ موالات کی راہ میں ایک روڑا سمجھنے لگے حضرت مولانا کو یہ صورت حال ایک لمحہ کے لیے نہ بھائی آپ نے ایسے ہنگامی حالات اور پرآشوب ماحول میں جبکہ کوئی بھی اس طرح کی حق بات سننے کاروادار نہ تھا اور بڑے سے بڑا آدمی بھی حق بات کہتے ہوئے گھبرا تاتھا اعلان حق کیا اور اپنے دلی احساسات اور خیالات کا برملا اظہار کیا اور انتہا پسند خیالات پڑڈنکے کی چوٹ پر تنقید کی آپ نے تحریر فرمایا:
’’مذہبی تعلیم جس کا بیڑا میرے اکابر نے اٹھایا اور جس میں تمام عمر منہمک رہے ہیں اس کو نہایت ضروری اورمہتم بالشان سمجھتاہوں اور ہر اس تحریک کا سختی سے مخالف ہوں جو اس میں نقصان پہنچانے والی ہو میں نے سنا ہے کہ بعض علماء اسلام جوش کے ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ مدارس دینیہ بند کردو اور سب کے سب خلافت کی طرف متوجہ ہوجاؤ میرے نزدیک یہ نہایت غلط راستہ ہے دونوں امر فرض کفایہ ہیں علماء اور ہادیان ملت کو دونوں کی طرف توجہ فرمانا اور دونوں کو یکساں سمجھنا ضروری سمجھتاہوں۔‘‘
حدودِشرعیہ سے سرِ مو تجاوز یا تفریق واختلاف غیردانشمندانہ ہے:
خلافت کی تحریک کے دور میں پورے ہندوستان میں اسی کا تذکرہ اور اسی کے لیے دوڑ دھوپ جاری تھی اور اس معاملہ میں بعض انتہا پسندوں نے اتنا سخت رویہ اختیار کرلیا تھا اور ان پر مسئلہ خلافت اور آزادی وطن کا جذبہ ایسا طاری تھا کہ حدود شرعیہ کااحترام بھی کماحقہ باقی نہیں رہا تھا اور انہوںنے ان لوگوںکے خلاف جو اس طرز فکر اور طریقہ عمل کو پسند نہ کرتے تھے توہین آمیز رویہ اختیار کرلیاتھا، حدود شرعیہ سے ایسا تجاوزاور یہ غیر اسلامی عمل اور غیر معقول رویہ آپ کو بالکل پسند نہ آیا آپ نے صاف صاف تحریر فرمایا:
’’ہر ایسے امر کو جو مسلمانوں میں تفریق واختلاف کاباعث ہو یا حدود شرع سے متجاوز ہومثلا کسی جزوی اختلاف پر یامحض گمان مخالفت پر کسی زندہ یا مردہ مسلمان کی تذلیل وتوہین یا تقلید یورپ میں ایسے اصولوں پر عمل جو اسلام کی تعلیم کے مطابق نہیں ان سب کو نہایت