ہونا چاہئے تھا لیکن میں ان لوگوں کو ترغیب بھی دیتا رہتا ہوں پھر بھی حاضری کی توفیق نہیں ہوتی ،حضرت قدس سرہ نے حضرت رائیپوری سے ارشاد فرمایا کہ حضرت اس کا بالکل خیال نہ فرمائیں مجھے تو اس میں بہت غیرت آتی ہے میں نے تو اپنے شیخ یعنی قطب عالم گنگوہی کے متعلق بھی کبھی کسی کو ترغیب نہیں دی پھر اپنے صاحبزادے مرحوم کی بیعت کا قصہ سنا کر اس ناکارہ کی طرف ذرا جھکے یہ اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں مجھے تو اس میں بڑی غیرت ہے میرے نزدیک تو کسی کی غرض ہو تو دس دفعہ آئے ورنہ میری پاپوش سے۔
(آپ بیتی نمبر۴/۲۱)
شب بیداری اور سحر خیزی :
حضرت مولانا کو بچپن سے شب بیداری اور سحر خیزی کی عادت تھی حضرت گنگوہی سے بیعت ہونے کے بعد یہ عادت اور پختہ ہوگئی اور آپ رات کو اٹھنے کی خاطر اپنے پاؤں کے انگوٹھوں کو اس طرح باندھ لیتے تھے کہ نیند پوری طرح نہ آئے اور شب بیداری میں ناغہ نہ ہو آپ شب کو اٹھتے نوافل پڑھتے خدا کی بارگاہ میں روتے گڑگڑاتے مانگتے فریاد کرتے اس آہ سحر گاہی نے آپ کو خوف و خشیت الٰہی کی یہ نعمت عطا کی جس پر لاکھوں نعمتیں نثار،آپ کی اس عادت شریف کے متعلق مولانا عاشق الٰہی صاحب تحریر کرتے ہیں۔
’’نوجوان بیٹے اور بیٹیوں کی وفات کے متواتر ترین صدمے آپ کو پیش آئے اور ممتد تیمارداری ہوئی کہ گھر میں یا آپ تھے یا آپ کی اہلیہ محترمہ تہجد کا معمول نہ تیمارداری میں چھوٹا نہ موت کی شب میں،مدنی راستہ میں آپ کو بخار ہوا اور شدید ہوا کہ بدن پر ہاتھ رکھنا مشکل تھا ،آپ شغدف میں تھے اور فرط حرارت سے گویا بے ہوش تھے مگر نصف شب میں بخار ہلکا ہوا اور آخر شب میں حسب معمول آپ ہمت کرکے اٹھ کھڑے ہوئے کچھ کھڑے ہوکر اور کچھ بیٹھکر نفلیں ادا کیں اور لیٹ رہے ، شب میں قافلہ چلتا آپ شغدف ہی پر وضو کرتے اور پورے نوافل ادا فرماتے ،رات کے بارہ ایک بجے آپ کو ریل میں بیٹھنا ہوا کہ نہ ادھر اطمینان سے سونے کا وقت نہ ادھر آرام کا کافی وقت مگر نصف شب کے بعد کا وقت ریل میں ہوتاتو اندر ورنہ باہر اسٹیشن پر آپ آٹھ دس نوافل ادا فرماتے اور ریل آنے پر اس پر سوار ہوجاتے ۔(تذکرۃ الخلیل:۳۶۰)
حضرت مولانا شب بیداری اور سحرخیزی کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ نیند بھی اختیاری بن گئی تھی جب چاہتے سوجاتے جب ارادہ کرتے آنکھ کھل جاتی ،اﷲ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ معاملہ بھی ایسا تھا کہ آپ کو نیند پر قابو سا ہوگیا تھا خود فرمایا کرتے تھے۔
’’مجھے سونے کے لئے صرف ارادہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ نیند کا ارادہ کرنے کے بعد تکیہ سر پر رکھنے کی بھی مجھے خبر نہیں ہوتی۔
آپ نے اکثر سفر کے دوران اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے جاگنے میں تعب نہیں ہوتا اور نہ پھر سونے میں دیر لگتی ہے اس لئے جب ضرورت ہو بے تکلف جگالینا۔
آپ کا ہمیشہ معمول صبح صادق سے دو گھنٹہ قبل اٹھنے کا تھا اس میں کوئی تخلف یا تکلیف نہیں ہوتی تھی۔