سے نکلتا۔‘‘
کل امرئٍ فی امور الدھر مشتغل
وانت عن کلھا فی احسن الشغل
(تذکرۃ الخلیل: ۳۵۲)
تلاوتِ قرآن:
حضرت مولانا نے قرآن مجید کی تلاوت کو ایسا مشغلہ زندگی بنایا اور اس کو اپنے معمولات میں ایسا داخل کیا کہ آخر عمر تک اس سے شغف رکھا اور اس کی تلاوت برابر فرماتے رہے، آپ نے اس نعمت کی ایسی قدردانی کی اور اس کے ورد کا ایسا اہتمام کیا کہ گرمی سردی سفر حضر پریشانی اور اطمینان کے دور میں شب وروز اس کی تلاوت کی جن کو آپ کی خدمت میں بیٹھنے کا موقع ملا اور انھوں نے آپ کے معمولات کا مشاہدہ کیا آپ کی خدمت میں رہے ان کا کہنا ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا جو قرآن کریم کی تلاوت سے خالی رہا ہو ، آپ جیسا مشغول انسان جس کا مشغلہ زندگی متضاد علمی و عملی کاموں کا ہو ایک طرف گھنٹوں پڑھانا مریدین کی تربیت خانگی ضرورتوں کو پورا کرنا آنے جانے والوں سے ملاقات ، مسائل کے پوچھنے والوں کو جواب دینا یا لکھانا، باربار اور مسلسل سفر کرنا اور اس پر کلام اللہ کی ایسی تلاوت کو مشغول سے مشغول انسان کو رشک آئے ۔
مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں:
’’آپ نے پورے قرآن مجید کا ختم اپنی نماز کا جز بنا لیا کہ کم ازکم سوا پارہ ورنہ تو اڑھائی پارے بعد مغرب صلوۃ الاوابین کی چھ رکعت میں پڑھا کرتے جو کبھی سفر اور مرض میں بھی قضا نہ ہوتی تھی۔ اِلّا نادرًا اور کبھی ریل میں سفر اور ہجوم سواریان کی وجہ سے طویل نوافل کا اتفاق سے موقع ہی نہ ملا تو پارہ ہائے قرآن مجید کو بیٹھ کر ضرور پورا فرمالیتے تھے، اسی طرح تہجد کی بارہ نفلوں میں دوسرا ختم معمول تھا کہ دو پارے سے لے کر چار پارے تک جتنا وقت اور سکون کے ساتھ جس مقدار میں طبیعت کا لگاؤ پاتے تو تلاوت فرماتے کہ اس کا بھی اس قدر اہتمام تھا جسکی نظیر ملنا مشکل ہے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل: ۳۸)
حضرت مولانا نے تلاوت قرآن مجید کا زندگی بھر ایسا اہتمام رکھا کہ رات کی تاریکی میں کہ جب ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دیتا تھا سفر کی وجہ سے جسم کا جوڑجوڑ دکھ رہا تھا کہ اٹھ گئے، آہستہ قدم ٹٹولتے ٹٹولتے تاروں کی جھلملاہٹ میں آگے بڑھے ایک شکستہ حال مسجد جس کی سیڑھیاں بھی صحیح سالم نہ تھیں کو پالیا قدم اٹھایا مسجد میں داخل ہوگئے اور نیت باندھ لی اور قرآن شریف کی تلاوت شروع کردی۔
گاڑی رواں دواں ہے ہجوم ایسا کہ بیٹھنا بھی دشوار جو بیٹھا بیٹھا رہ گیا ہلنا بھی مشکل ، کیسا وضو اور کیسی نفلیں، مگر قرآن کریم کی تلاوت اور اپنے رب کریم سے مناجات کا ایسا شوق کہ کسی نہ کسی طرح اٹھ کر بہ ہزار دقت ریل کا دروازہ کھولا اور وضو کیا ، نماز پڑھنے کی کہیں جگہ نہ تھی، جاہل قسم کے مسافر جو ذرا ذرا سی بات پر لڑ بیٹھیں مگر آپ نے اللہ کا نام لے کر جگہ بنائی اور پورے