اپنے دامنوں کو بھرا اور آگے چل کر انہوں نے ان کو دوسروں میں تقسیم کیا اور آج بھی اس چشمہ صافی سے لاکھوں انسان سیراب ہورہے ہیں۔ یہی وہ دردومحبت اور عشق ومستی ہے جس کو اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح ذکر کیا :
عشق دم جبرائیل عشق دل مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کأس الکرام
عشق فقیہہ حرم عشق امیر جنود
عشق ہے ابن السبیل اس کے ہزاروں مقام
آپ کے نزدیک یہی محبت اور یہی عشق زندگی کا حاصل ، شریعت کی منزل اور طریقت کا مقصود ہے اسی کے لئے ذکر وشغل کرائے جاتے ہیں اسی کے حصول کے لئے مجاہدات مراقبات سے کام لیاجاتاہے آپ فرماتے ہیں:
’’طریقت سے مقصود یہ ہے کہ دنیا ومافیہا کی طرف سے بے رغبتی ہو اور اللہ ورسول کی محبت دل میں جاگزیں ہو ، بس اس سے ادھر یا ادھر نظر نہ ہٹانا چاہئے۔‘‘
آپ ہمیشہ اس کی کوشش فرماتے کہ آپ سے تعلق رکھنے والے حضرات اسی عشق الٰہی اور محبت خداوندی کی دولت سے مالا مال ہوں اور ان سے ان کے دل آباد ہوں اور عشق ان کے دلوں میں اتنا رچ بس جائے کہ زندگی کے کسی لمحہ بھی یاد الٰہی اور ذکر خداوندی سے غفلت نہ ہو اور اس کی کیفیت وکمیت اتنی بڑھ جائے کہ حد سے سوا ہوجائے یہاں تک کہ بے کیف وکم ہوجائے۔
ماہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الاحدیث یار کہ تکرار می کنیم
اس عشق ومحبت اور دردوسوز کا یہ لازمی نتیجہ ہوتاہے کہ آدمی مرضیات الٰہی پر چلنے لگتا ہے اور اتباع شریعت کو شیوئہ زندگی بنالیتاہے اپنے محبوب کی یاد میں شب وروز بسر کرتاہے۔
آپ اس کومحبت خداوندی کا نتیجہ سمجھتے تھے اورآپ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ آپ کے سارے منتسبین اس بادئہ عشق ومحبت سے