یہی مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوری حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب رائے پوری کے جانشین ہوئے اور ان کے دم قدم سے رائے پور کی خانقاہ آباد ہوئی اور ہزاروں لاکھوں نے استفادہ باطنی کیا اور مرجع خلائق بنے نوراﷲ مرقدہ و برد اﷲ مضجعہ۔
یہی حضرت مولانا عبدالقادر صاحب رائے پوری اپنے شیخ و مرشد حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب رائے پوری کے وصال کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نوراﷲمرقدہٗ سے عرض کرتے ہیں۔
’’حضرت کا تو وصال ہوگیا اب میں حضرت سے تجدید بیعت کرنا چاہتا ہوں۔حضرت سہارنپوری نے اول حالات دریافت فرمائے اور پھر ارشاد فرمایا کہ اﷲ کا شکر ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں کوئی بات پوچھنی ہوتو میں حاضر ہوں۔‘‘
(سوانح حضرت مولانا عبدالقادر رائپوری:۸۰)
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب :
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب اور شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب تقریباً ہم عمر تھے دونوں کی عمروں میں صرف ایک سال کا فرق تھا شیخ الہند ۱۲۶۸ھ میں پیدا ہوئے اور حضرت مولانا ۱۲۶۹ھ میں ،کچھ دنوں دونوں ہم سبق بھی رہے اس کے بعد ایک ہی شیخ و مرشد حضرت گنگوہی سے بعیت ہوئے اور دونوں کو اجازت و خلافت ملی،۱۳۰۸ھ سے ۱۳۱۴ھ تک دونوں کا دارالعوم دیوبند میں بحیثیت مدرس کے ہمہ وقت ساتھ رہا جس کی وجہ سے آپس میں محبت و مودت ،انس و یگانگت بہت زیادہ ہی رہی بلکہ بے تکلفی کی حد تک تعلقات بڑھ گئے تھے۱۳۲۲ھ میں شیخ الہند مدرسہ مظاہر علوم کے سرپرست بنائے گئے جہاں حضرت مولانا صدر مدرس تھے اس سے اور زیادہ قربت بڑھی اور پھر آخر تک سیاسی ،علمی ،دینی و روحانی اتحاد رہا اور ایک دوسرے کے ہمراز ،غمگسار اور مشیر کا ر بنے رہے ،مولانا عاشق الٰہی صاحب ان دونوں کے آپسی تعلقات ،اتحاد و یگانگت کا حال اس طرح لکھتے ہیں۔
’’ہم عمری کے ساتھ بچپن میں دونوں میں ہم سبق اور ہم مکتوب ہونے کا اتحاد رہا اور پھر ایک شیخ کے دامن گرفتہ اور پیر بھائی ہونے کے تعلق نے تو اس یگانگت کو ایسا شیریں بنا دیا گویا ایک جان اور دوقالب بن گئے‘‘۔(تذکرۃ الخلیل: ۱۶۴)
ان دونوںمیں اتحاد و یگانگت کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے کی بات ٹالنا پسند نہیں کرتے تھے ان دونوں میں سے کسی سے کوئی کام لینا ہوتا تو دوسرے کے ذریعہ وہ بخوبی لیا جاسکتا تھا یہ کمال اتحاد کی بات ہے اس سلسلہ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔
ایک جگہ علماء کا اجتماع تھا حضرت شیخ الہند بھی تھے اور حضرت مولانا بھی ،حاضرین میں ہر طرح کے لوگ تھے لوگوں نے خواہش کی کہ شیخ الہند سے وعظ سناجائے مگر عرض کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوئی لوگوں نے حضرت مولانا کو واسطہ بنایا کہ آپ کے کہنے سے شیخ الہند وعظ فرمائیں گے اور آپ کی بات نہ ٹالیں گے حضرت مولانا راضی ہوگئے اور پھر شیخ الہند سے فرمایا۔
دوستوں کی خواہش ہے کہ آج بعد ظہر کچھ بیان فرمادیجئے شیخ الہند نے ارشاد فرمایا۔مجھے تو وعظ کہنا ہی نہیں آتا ،حضرت مولانا نے جواب دیا۔۔۔یہ کون کہتا ہے کہ آپ کو وعظ کہنا آتا ہے اور آپ وعظ کہیں درخواست یہ ہے کہ جس طرح مدرسہ میں بیٹھ کر ترجمہ فرماتے ہیں یہاں مسجد میں بیٹھ کر کسی حدیث کا ترجمہ سنادو ۔