کہ شب وروز اسی فکر میں رہتے تھے کہ کوئی عمل سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسم کے حکم کے خلاف نہ صادر ہو اس محبت وعقیدت کا بین ثبوت اہل بدعت سے ہر مناظرہ اور سنت کی حفاظت کے لیے ہرتحریر تھی۔
صحابہ کرام سے محبت کایہ حال تھا کہ رد شیعیت میں کئی مناظرے کیے۔۔۔ قیام بہاولپور کے دوران اور اثنائے قیام بریلی میں رفض وشیعیت کے خلاف کتابیں لکھیں اور زبانی بات کی اور امروہہ کا معرکۃ الآراء مناظرہ صحابہ کرام سے گہرے تعلق کا پتہ دیتا ہے۔ مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی جو پورے ہندوستان میں شیعہ علماء سے مناظرہ کرتے رہتے تھے آپ سے خصوصی تعلق رکھتے تھے اکثر سہارنپور حاضر ہوتے اور ایک ہفتہ قیام کرتے اور حضرت مولانا سے اولیات کی سند بھی لی تھی اور حضرت مولانا سے اس طرح استفادہ کرتے جیسے طالب علم اپنے استاذ سے کرتاہے حضرت مولانا بھی ان سے شفقت ومحبت کا معاملہ کرتے اور ان کی ہمت افزائی کرتے امروہہ کے مناظرہ میں ان کو خاص طور پر بلایا اور مناظرہ کے لیے کھڑا کیا اور ان کی تائید میں بلند الفاظ ارشاد فرمائے۔
بعض حضرات نے حضرت مولانا سے اس وقت سوال کیا جبکہ لکھنؤ میں مولانا عبدالشکور صاحب کی رفض شیعیت کے خلاف جدوجہد جاری تھی کہ حضرت اس سے امن لکھنؤ برباد ہورہاہے تو حضرت مولانا نے فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عزت وناموس بچانے کے لیے امن لکھنؤ کیا اگر امن عالم بھی برباد ہوجائے تو کچھ پرواہ نہیں۔
حضرت مولانا کو جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے محبت وتعلق تھا اسی طرح اہل بیت سے عقیدت تھی وہ دو انتہا پسند فرقوں پر سخت تنقید فرماتے ہیں نہ وہ اہل تشیع کو پسند کرتے ہیں نہ خوارج کو وہ ایک جگہ ان دونوں متحارب فرقوں کے عقیدے بتلاکر اپنا عقیدہ اس طرح ظاہر فرماتے ہیں:
’’شیعہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اہانت واجب اور تفسیق وتکفیر کو فرض اعتقاد کرتے ہیں اور خوارج خذلہم اللہ اہل بیت کرام کی تذلیل کو واجب اور تضلیل کو فرض اعتقاد کرتے ہیں لیکن ہم معشر اہل السنۃ والجماعت عموما اپنے اعتقا د میں پیروی اپنے مذہب، اہل بیت نبوت کی محبت اور تعظیم کو ایسا ہی واجب اور جزو اسلام اعتقاد کرتے ہیں جیساکہ صحابہ کی محبت اور تعظیم کو واجب اعتقاد کرتے ہیں اور ان کی جناب میں گستاخی کو ایسا ہی حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں جیساکہ صحابہ کرام کی جناب میں گستاخی کو، غرض شیعہ وخوارج کو اس باب میں اپنے اعتقاد کی میزان کے دونوں پلوں میں برابر وزن کرتے ہیں۔‘‘
(ہدایات الرشید الی افحام العنید :۸)
فقہی مسلک اور معتدل رویہ:
قرآن وحدیث میں درک واشتغال اور ان سے والہانہ شیفتگی کے ساتھ ساتھ آپ کو فقہ میں بھی ملکہ حاصل تھا آپ کو اس بارے میں جس وسعت نظر، ملکہ تام اعتدال وتوازن کا وافرحصہ ملا تھا اس کا اندازہ آپ کے ہزاروں فتاویٰ اور سوالات کے جوابات میں صحیح طور پر لگتاہے، آپ فقہ حنفی مسلک رکھتے تھے اور اسی مسلک کو کتاب وسنت سے زیادہ قریب اور فطرت کے مطابق جانتے