فرماکر مکان تشریف لے گئے اور میں محجوب و منفعل کہ میں کیا اور میری حقیقت کیا اتنے میں مولوی زکریا صاحب مجھے وہ دے گئے اور میں تعمیلا للارشاد میں میں نے کہیں کہیں سے کچھ دیکھادوسرے دن بھرے مجمع میں مجھ سے دریافت فرماتے ہیں کیوں بھائی وہ بذل المجہود کے اجزاء دیکھے ؟میں نے عرض کیا جی ہاں جناب والا کے ارشاد کی تعمیل کردی یہ سن کر حضرت نے ایک شفقت بھری خاص نظر مجھ پر ڈالی اور دریافت فرمایا کیسے ہیں؟میں نے یہ سمجھ کر کہ متن کی کتابت حوض میں ہوگی اور شرح بصورت حواشی حاشیہ پر جس فن سے مناسبت رکھتا تھا اس کا لحاظ رکھ کر عرض کیا کہ قدرے طویل ہیں مگر پر منفعت ہونے میں کیا شک ہے فرمایا حامل المتن ہونے کہ وجہ سے کچھ طویل تو ضرور ہیں مگر عون المعبود و مطبوعہ فاروقی دہلی طریقہ پر طبع ہوگی نہ کہ محشی ابوداؤد کے طرز پر۔(تذکرۃ الخلیل)
مولانا فیض الحسن صاحب اسی سفر میں حضرت مولانا سے بیعت ہوئے اور تقریباً ۵،۶ ہی سال میں تکمیل سلوک کرکے اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے یعنی جبکہ حضرت مولانا آخری سفر حج کو ۴۴ ھ میں روانہ ہوئے تو مولانا کو مجاز طریقت بنایا۔
(۶)حافظ فخرالدین صاحب پانی پتی:
جناب حافظ فخرالدین صاحب پانی پت کے رہنے والے اور مدتوں ریلوے ملازم رہے ملازمت کے دوران ہی حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سے تعلق قائم کیا اور اپنی محنت ومشقت مجاہدات اور ذکرو شغل سے راہ سلوک طے کی ،حضرت مولانا نے پوری توجہ کے ساتھ ان کی تربیت فرمائی اور قدم بہ قدم پر رہنمائی کی۔
حافظ صاحب کے والد ماجد حضرت مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی کے شاگرد رشید تھے اس وجہ سے حضرت مولانا کو ان سے بہت زیادہ تعلق تھا حافظ صاحب ایک زمانہ میں خواجہ اسٹیشن پر ملازم تھے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا تشریف لے گئے تو ملاقات کے وقت فرمایا حافظ جی تمھارے ساتھ تو ہمارا پرانا تعلق نکلا ،حافظ صاحب نے عرض کیا ! وہ کیسے؟
فرمایا ۔تمہارے والدصاحب سے خط و کتا بت رہی اور معلوم ہوا کہ انھوں نے تو عذر سے پہلے مولانا مملوک علی صاحب سے تحصیلِ علم کیا ہے اور مولانا رحمۃ اﷲ علیہ میرے نانا تھے۔
(تذکرۃ الخلیل:۴۲۱)
حافظ صاحب میں استعداد زیادہ تھی اور ان کی طبیعت راہ سلوک پر خوب چلی اس لئے حضرت مولانا نے ان کی طرف پوری توجہ فرمائی وہ جب آپ سے بیعت ہوئے تو صرف تسبیحات بلا قید وقت پڑھنے کو بتلایا اور حکم فرمایا کہ اپنی حالت کی اطلاع جلد جلد اور برابر دیتے رہا کرو حافظ صاحب نے حکم پر پوراعمل کیا اور اپنے حالات و کیفیات کی برابر خبر دیتے رہے کچھ دنوں بعد حضرت مولانا نے نفی اثبات اور ایک ہزار بار اسم ذات کا ذکر تلقین فرمایا اثنا ئے سلوک میںان پر ایک خاص حالت حزن پیدا ہوگئی نہ کھانے پینے میں جی لگتا نہ بیوی بچوں میں ہنسنے بولنے کو جی چاہتا احباب سے مل کر وحشت کھاتے بڑے تنہائی پسند ہوگئے جنگل چلے جانے پر آمادہ ہوگئے ان کی اس حالت و کیفیت سے ان کے والدین بھی گھبراگئے اور گھروالے بھی پریشان ہوئے والد صاحب نے حضرت مولانا کو خط لکھا اور اپنی اور والدہ کی پریشانی کا اظہار کیا حضرت مولانا نے جواب دیاکہ گھبرانے کی بات نہیں یہ حالت باقی نہ رہے گی