،حضرت مولانا رشید احمدصاحب گنگوہی سے بیعت کا تعلق رکھتے تھے اور آخر میں حضرت ہی سے اجازت و خلافت کا شرف حاصل کیا لیکن اخفا کا یہ عالم تھا کہ کسی کو اس کی خبر بھی نہ ہوسکی مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں۔
’’حضرت مولانا حافظ قمر الدین صاحب امام جامع مسجد سہارنپور بھی اغلب یہ ہے کہ حضرت امام ربانی سے مجاز ہیں مگر اخفا بہت فرماتے تھے اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی طرف سے تو اجازت بیعت بالفاظ صریحہ ہوچکی ہے۔‘‘
(تذکرۃ الرشید جلدثانی)
حضرت گنگوہی کی وفات کے بعد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نور اﷲ مرقدہ سے تعلق پید کیا اور اصلاح لی اور بہت جلد اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے حضرت مولانا زکریا صاحب شیخ الحدیث تحریر فرماتے ہیں۔
’’بہت ہی اکابر مشائخ میں تھے نہایت پابند صوم وصلوٰۃ اور اد وظائف تھے ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ حضرت اقدس سہارنپوری نور اﷲ مرقدہٗ کے اجل خلفا میں سے تھے اس کے علاوہ حضرت گنگوہی کے بھی مجاز تھے۔‘‘(تاریخ مظاہر جلداول:۲۱)
حافظ قمر الدین صاحب غالباً حضرت سہارنپوری کے اولین خلفا میں تھے کہ وہ یکساں طورپر دونوں بارگاہوں (یعنی بارگاہ رشیدی اور بارگاہ خلیلی )سے تعلق رکھتے تھے۔
آخر عمر میں سات سال تک شدید طور پر بیمار رہے اور فالج کا شکار رہے مگر نماز کی پابندی کا یہ حال تھا کہ خدام کرسی پر بٹھا کر مسجدمیں صف اول میں بٹھا دیا کرتے تھے ،تکبیر اولیٰ کا اتنا خیال اور اہتمام رہتا تھا کہ کوئی نماز تکبیر اولیٰ کے بغیر نہیں پڑھی جب امامت سے معذور ہوگئے تو حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی بلاتنخواہ ان کے نائب امام بن کر نماز پڑھاتے رہے۔
۷محرم ۱۳۳۴ھ مطابق ۱۵ِدسمبر ۱۹۱۵ء کی شب میں تہجد کے وقت انتقال فرمایا اور اس آخری شب کی آخری نماز بھی باوجود سخت معذوری کے حسب معمول تکبیر اولیٰ کے ساتھ اپنی کرسی پر جماعت سے پڑھی۔
تاریخ مظاہر جلددوم میں حافظ صاحب کا تذکرہ ان الفاظ میں مندرج ہے۔
’’مدرسہ کے ابتدائی دور میں ایک بزرگ شخصیت جناب الحافظ الحاج قمر الدین صاحب جو باوصف اپنے زہدو تقویٰ عالم باعمل اور بارگاہ رشیدی سے مجاز بیعت ہونے کے مدرسہ کے معاون اور اس کا دردو فکر رکھنے والے تھے قیام مدرسہ کے بعد حضرت مولانا سعادت علی صاحب نے سب سے پہلے عربی تعلیم حضرت حافظ ہی کو شروع کرائی تھی اور تعلیم سے فراغت پر پھر اسی مدرسہ کے ہورہے تھے کہ مدرس اول درجہ قرآن شریف اور خطیب جامع مسجد سہارنپور مقرر ہوئے اور تاحیات اس خدمت کو انجام دیتے رہے آخر زمانے میں ضعف و پیری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے آرام کرسی پر مسجد میں آمدورفت ہوا کرتی تھی لیکن نماز ایک وقت کی بھی فوت نہ ہوئی حتیٰ کہ اپنی زندگی کی آخری نماز ،نمازِ عشاء صف اول میں پڑھی اور تہجد کے وقت ستائیس محرم کی شب میں انتقال فرمایا حق تعالیٰ غریق رحمت فرمائے کہ بہت سی خوبیوں کے مالک اور بہت سے محاسن اپنے اندر رکھتے تھے ۔(تاریخ مظاہر جلددوم:۱۵)
۲۔مولانا محمد یحیٰ صاحب کاندھلوی: