انشاء اﷲ جلد کامیابی ہوگی لیکن جب حافظ صاحب نے خود اپنا یہ حال لکھا تو انکو جواب مرحمت فرمایا مبارک حالت ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کَانَ رسُول اﷲ صَلیَ اﷲ عَلیہِ وسلّم متواصل الاحزان پس حزن خواہ اپنے نقصان پر ہو یا محبوب حقیقی کی مہجوری پر ہو یا خوف و رجا کی وجہ سے ہو ہر حال اچھا اور عمدہ ہے نیز ذاکر کا قلب جب ذکر کے ساتھ منصبغ ہوجاتا ہے تو لذائذ دنیویہ سے طبع میں افسردگی پیدا ہوجاتی ہے الحمد ثم الحمد کہ یہ نعمت میرے لخت جگر کو نصیب ہوئی۔(تذکرۃ الخلیل:۴۲۰)
ملا حظہ کیجئے کہ حضرت مولانا نے ان حالات پر حافظ صاحب کو کن پیارے الفاظ یعنی میرے لخت جگر سے یاد کیا قابل فخر ہیں ایسے مرشد اور قابل رشک ہیں ایسے مسترشد حافظ صاحب کی تربیت کرنے میں حضرت مولانا کا انداز بڑا مشفقانہ اور غائرانہ رہتا تھا حافظ صاحب چونکہ ریلوے ملازم تھے اس لئے آپ کو یہ خطرہ لاحق ہوتا تھا کہ کہیں بحیثیت ریلوے ملازم کے وہ بے ٹکٹ سفر نہ کرتے ہوں اس لئے ان کو آپ سفرمیں ساتھ لیتے تو گیٹ پر پہنچ کر آپ کو آگے کردیتے کہ چلو اور بغور دیکھتے کہ ٹکٹ دیاہے کہ نہیں ۔
غرضکہ حافظ صاحب کئی سال تک مختلف احوال و کیفیات سے گذرتے رہے اور جب ان میں حضور مع اﷲ کی کیفیت پوری طرح پیدا ہوگئی اورحضرت مولانا کو ان کے رفیع حالات پر اطمینان ہوگیا تو آپ نے مولانا محمد یحیٰ صاحب کے ہاتھ سے اجازت نامہ لکھواکر بھیج دیا اور ان کو بیعت کرنے اور دوسروں کی اصلاح کرنے کا مجاز فرمایا۔
حافظ صاحب کو حضرت مولانا سے بہت زیادہ تعلق تھا وہ گویا سراپا عشق و محبت تھے بڑے ذاکر شاغل اور پابند اوقات تھے قرآن کریم سے اتنا شغف تھا کہ روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرلیا کرتے تھے بڑے سادہ طبیعت اور منکسر المزاج تھے تکبر و غرورنام کو نہ تھا راقم سطور نے بھی ان کی بارہا زیارت کی ہے۔
حافظ صاحب کو حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی کے گھرانے سے بہت ربط تھا اور وہ آخر تک رہا نظام الدین برابر آتے جاتے تھے اور کاندھلہ کے اس گھرانے سے جیسا معاملہ کرتے تھے تقسیم ہند کے وقت جب کہ راستے مسدود تھے آپ نظام الدین آئے بغیر چین نہ پاتے آخر عمر میں پیچش کی شکایت ہوگئی تھی اسی مرض میں شب یکشنبہ ۲۴ِشوال ۱۳۷۳ھ مطابق ۲۶ جون ۱۹۵۴ء کو انتقال کیا دوسرے دن صبح کو فتحپوری مسجد دہلی میں قاری محمد طیب صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور خواجہ باقی باﷲ کے قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔
(۷)حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی:
حضرت مولانا محمد الیاس ۱۳۰۳ھ میں پیدا ہوئے مولانا محمد اسماعیل صاحب کاندھلوی کے چھوٹے صاحبزادے تھے اور مولانا محمد یحیٰ صاحب کے بھائی،الیاس اختر تاریخی نام تھا مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی کی صاحبزادی ’’امی بی‘‘جو رابعہ سیرت خاتون تھیں اور اپنے زمانہ کی نہایت عابد اور زاہد اور خدا رسیدہ بی بی تھیں آپ کی نانی تھیں ان کو آپ سے انتہائی محبت تھی وہ آپ کو بچپنے ہی میں دیکھ فرماتی تھیں۔
’’اختر مجھے تجھ سے صحابہ کی خوشبو آتی ہے۔‘‘