ہوتا کہ ریشمی کم خواب ہاتھوں میں داب لیا ہے اور معانقہ کرتے تو گویا نرم ونازک روئی نے چھاتی سے لگالیا ہے آپ کاچہرہ بدر کی طرح چمکتا اور بلامبالغہ ایک تازہ گلاب کاپھول معلوم ہوتاتھا آپ کے بدن کاہرعضو متناسب تھا اورکسی چیز کے متعلق بھی حسن شناس کوحرف گیری کاموقع نہ تھا، آپ خندہ پیشانی تھے اور ہر وقت آپ کے دہن پر مسکراہٹ محسوس ہوتی تھی آواز آپ کی نہایت پیاری اورمردانہ تھی گوضعف پیری کے سبب اس میں رعشہ اورخفیف لرزہ تھا مگر تقریر بے تکان اور مسلسل ہوتی تھی کوئی مضمون آپ ادا فرماتے تو مقدمہ اور تمہید کو اول دلنشین کرتے اورپھر مافی الضمیر ادا فرمایا کرتے آپ کی صاف گوئی مشہور تھی کہ جب کہتے بے لاگ لپیٹ بات کہتے تھے۔‘‘
تیرہواں باب
اخذ بیعت اور طالبین سلوک کی تعلیم وتربیت
مولانا عاشق الٰہی صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’جب تک آپ کے مرشد شیخ حضرت گنگوہی بقید حیات رہے آپ بیعت کرنے سے حتی الامکان بچتے تھے اگر کسی کے اصرار پر بیعت کرتے تو توبہ کراکے یہ الفاظ کہلاتے کہ کہو: بیعت کرتاہوں میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب سے خلیل احمد کے ہاتھ پر۔‘‘ لیکن حضرت گنگوہی کی وفات کے بعد آپ نے بیعت کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا اور بیعت فرمانے لگے آپ کا سلسلہ بڑھا، اور ہندوستان سے نکل کر حجاز تک پہنچا کہ اہل حرمین شریفین نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔‘‘
اثر انگیز بیعت:
اللہ تعالیٰ نے آپ کے دست حق پرست اور زبان کی اتنی کشش اور تاثیر دی تھی کہ جس نے بھی آپ کے مبارک ہاتھوں توبہ کی اس کی زندگی میں مبارک تبدیلی پیدا ہوگئی۔
مولوی عبداللہ جان سہارنپور کے ایک مشہور وکیل تھے یورپ کے ممالک کا دورہ کئے ہوئے تھے، بیعت ہونے کے قائل نہ تھے بلکہ بڑی حدتک مخالف، انگریزی معاشرت سے متاثر اور تصوف پر معترض رہتے تھے، وہ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں اول اول حضرت کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے حاضر ہوئے اور شافی جواب پاکر آپ سے متاثر ہوئے وہ خود بیان کرتے ہیں:
مجھے سب سے اول حضرت کی خدمت میں حاضری کا موقع اپنے پیشے میں کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے مسئلہ طلاق کے متعلق روایات فقہیہ کی پوچھ گچھ کی ضرورت سے نصیب ہوا کہ میرا مؤکل حضرت کا رشتہ دار تھا اور میں اپنے اشکالات حل کرنے کے