’’اگرہندو آئندہ اس مسئلہ قربانی میںجو اسلامی شعار ہے مزاحمت ترک کردیں اور مذہبی معاملات کو بجائے خود اس سے علیحدہ رکھ کر صرف دنیوی اور معاشرتی تعلقات میں مسلمانوں کے ساتھ اتحاد واتفاق کریں تو ایسی حالت میں ہنود کے ساتھ بہ پابندی حدود شرع دنیوی امور میں مصالحت واتفاق مناسب تصور کرتا ہوں بشرطیکہ مسلمانوں کے ادنیٰ سے ادنیٰ مذہبی امر پر اب یاآئندہ کسی قسم کااثر قطعا نہ ہو۔‘‘(اکابرکے خطوط)
آپ ان مسلمانوں پرسخت ترین تنقید فرماتے تھے جو موالات اور اتحاد واتفاق کی خاطر امور شرعیہ کاچنداںخیال نہیں کرتے تھے اور جنہوں نے قربانی جیسے مسئلہ میں فراخ دلی اور توسع سے کام لیا تھا اوراپنے ہم مذہب لوگوںکو آمادہ کرناچاہا تھا کہ وہ برادران وطن کے جذبات کالحاظ رکھتے ہوئے قربانی ترک کردیں آپ نے ایسے ہی ایک موقع پر سخت ترین الفاظ میں اس طرز عمل کی اور اس طرز فکر کی کھل کر مخالفت کی آپ نے تحریر فرمایا:
’’اس وقت جومسلمان ترک قربانی گاؤ کے معاملہ میں معاونت کررہے ہیں اور اس کے ترک پر عام مسلمانوں کو برانگیختہ کررہے ہیں وہ لوگ قطعا حدود شرع سے آگے بڑھ گئے ان پر واجب ہے کہ وہ حدود شرع سے ذرا بھی قدم نہ بڑھائیں ومن یتعد حدوداﷲ فقدظلم نفسہ اورہمیشہ اس کاخیال رکھنا چاہیے کہ اس مصالحت واتفاق سے خدانخواستہ آگے چل کر ایسے نتائج مرتب نہ ہوں جو مسلمانوں کے لیے دینی یا دنیوی مضرت کا باعث ہوں۔‘‘
سلطان ابن مسعودکے متعلق آپ کاخیال:
حضرت مولانا نے آخری حج اس دور میں کیا جب سلطان ابن سعود والی نجد والی حجاز بنے اور شریف حسین کوشکست ہوئی۔ سلطان ابن مسعود کی آمد سے پہلے حجاز میں بڑی بدامنی تھی اور حجاج کے قافلے لٹتے پٹتے تھے اور مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے مکہ پہنچنا بعض دفعہ ناممکن ہوجاتا تھا اور بعض حجاج زیارت مدینہ کیے بغیر اپنے اپنے وطن لوٹ جانے پر مجبور ہوجاتے تھے اورجو ہمت کرکے سفر کرتے تھے ان میں سے بعض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے نہ حکومت حفاظت کی ذمہ داری لیتی تھی اور نہ قافلے اپنے کومحفوظ کر پاتے تھے راستہ کے بدو اورخانہ بدوش دن دھاڑے قافلوں کو لوٹتے اور قتل وغار ت مچاتے تھے۔ ۱۹۲۵ ء میں سلطان ابن سعود نے شریف حسین کو شکست دے کرحجاز کو اپنے زیرحکومت کیا بددؤں سے مقابلہ کیا شرعی حکومت قائم کی اور چوروںکے ہاتھ کاٹنے شروع کیے، شرک وبدعت جو سعودی حکومت کے آنے سے پہلے عام تھی کہ بعض دفعہ ایسے مناظر دیکھنے کو آتے تھے کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے والے آدمی کو بے چین کرتے تھے کہ خدا کی شان ہے کہ جن دیارمقدمہ سے توحید وسنت کا غلغلہ بلند ہوا تھاوہیں پرمقابر اور مزارات پر قبے بنے ہوئے تھے اور مواجہ شریف نیز دوسرے بعض مقابر پر اعمال شرکیہ ہوتے تھے۔
حضرت مولانا نے بھی اس سے پہلے خود اپنی آنکھوں سے بدامنی قتل، غارت اور شرک وبدعت کے مناظر دیکھے تھے جب آپ نے دیکھا کہ اوامر شرعیہ پر سختی سے پابند ہونے کے سبب خالص اسلامی حکومت قائم ہوئی اور دیکھتے دیکھتے بدامنی بھی رخصت ہوئی شرک وبدعت بھی نیست ونابود ہوئی۔ بعض امور میں انتہا پسندی اور بعض مسائل میں مسلک ومشرب کے بعض اختلافات