دیر کو طبیعت سنبھلی تو اٹھے اور ضعیفہ کو سلام کیا اور فرمائش کہ پھر وہ نغمہ پر اثر سنائے اس ضعیفہ نے جو عشق نبوی سے سرشار تھی اور فراق محبوب میں بے قرار و اشکبار اس نغمہ عشق و محبت کو دہرایا حضرت عمر رضی اﷲ عنہ پر پھر گریہ طاری ہوا جب گریہ ختم ہوا تو فرمایا بڑی بی اپنی دعاؤںمیں مجھ کو بھی یاد رکھنا اس ضعیفہ خاتون نے بے ساختہ ایک مصرعہ کا اضافہ کیا۔
وعمر فا غفر لہ یا غفار (اور عمر سواس کو اے غفار !بخش)
حضرت مولانا کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ ہر نفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد اور آپ کے دیار مقدسہ کی آرزو آپ کے دل کو بیچین اور آنکھوں کو اشکبار رکھتی۔
اذھبت الاریاح من نحوطیبۃ اھاج فوادی طیبھا وھبوبھا
فلا تعجبو امن لوعتی وصاحبتی ھو کل نفس این حل حبیبھا
جب طیبہ کی جانب سے نسیم سحر چلتی ہے تو اس کے جھونکے اور اس کی خوشبو ئیں میرے دل کو بے کل کردیتی ہیں،میری سوزش دروں اور میری وارفتگی پر حیرت نہ کرو،ہر شخص کو وہ جگہ عزیز ہوتی ہے جہاں اس کا حبیب ہوتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ آپ کو دیار حبیب کی ایک ایک چیز سے والہانہ محبت اور خاک طیبہ کے ایک ایک ذرہ سے بے پناہ عشق تھا۔
مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی لکھتے ہیں:
مدینہ منورہ کی مٹی تک آپ کو بہت پیاری تھی ،زائرین کو آپ ابیار سبعہ کا پانی اور تراب مدینہ لے جانے کی ترغیب دیا کرتے اور فرماتے کہ ان میں شفا ہے مگر ساتھ میں یہ بھی فرماتے کہ مٹی کھانا نہیں کیونکہ ناجائز ہے ہاں لیپ وغیرہ میں استعمال کرلینا۔‘‘
(تذکرۃ الخلیل:۳۸۹)
آپ کو مدینہ کی کھجور سے جو محبت تھی وہ اس لئے نہ تھی کہ وہ میٹھا پھل اور غزائیت لئے ہوتا ہے بلکہ اس لئے اس سے عشق تھا کہ وہ دیار نبوی کا پھل اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب پھل تھا،آپ اس کو بڑے شوق سے تناول فرماتے ہدیۃً بھیجتے ساتھ لے جانے اور اس کی قدر کرنے کا حکم فرماتے مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی تحریر کرتے ہیں:
’’تمر مدینہ سے حضرت کو گویا عشق تھا اور ہر نوع رغبت سے کھاتے تھے بالخصوص بر نی،اور ہر نوع سے پوری واقفیت رکھتے تھے کہ یہ فلاں کھجور ہے اور اس کا یہ نام ہے اور اس کی یہ خاصیت ہے ،آخری قیام میں چونکہ آپ کو کھجور کا پورا موسم دیکھنا نصیب نہ ہوا اس لئے ابھی کچی ہی تھی کہ آپ نے ایک ڈبہ میں تازہ کھجور بند کرکے کپڑا سلواکرنام اور پتہ لکھوا کر یہاں بھیجا کہ لو تم بھی کھاؤ۔‘‘(ایضا:۳۹۱)
غرضیکہ آپ کو حضورعلیہ الف الف تحیہ سے نہایت عشق و فریفتگی تھی،آپ کی نسبت سے دیار پاک کے درو دیوار ،اس کے چمن کے گل و خار سے تعلق اور آب و ہوا سے الفت تھی،مواجہ شریف پر جاتے تو ہیبت و جلال سے لرزہ براندام ہوتے آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے آہستہ رو آہستہ خوسبک خرام جاتے اور دوسروں کو بھی آہستہ آواز میں سلام پیش کرنے کو کہتے۔
رخصت کے بجائے عزیمت: