جنگل یا دریا کے کنارے کبھی نہیں بھیجا، دماغ میں خشکی کبھی نہیں آنے دی اور طاقت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالا بلکہ ہمیشہ ان صوتوں سے منع کیا یہاں تک کہ اپنے پاس رہنے پر بھی کبھی زور نہیں دیا ہمیشہ بہت ہلکا کام بتایا کہ تمامی تعلقات مباحہ بحال رکھتے ہوئے بشاشت کے ساتھ انجام پاجائے مگر اس کا ثمرہ اتنا کثیر دیکھا برسہا برس مجاہدوں میں پڑنے والے بھی وہ بات نہ پاسکے آپ کے سلسلہ میں نہ وجد وحال کی دھوم دھام تھی نہ گریہ وبکا کاشور وغل نہ مکاشفات کا ورود تھا نہ داردات کا صدور۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۴۴۰)
بیعت کرنے کی اجازت:
حضرت مولانا کے یہاں سالک کی ترقی وتکمیل کا کوئی وقت نہ مقرر تھا نہ محدود یہ تو سالک کی محنت ذکروشغل پر دوام اوراہتمام اور اس کے نتیجے میں حضور بے کیف کی کیفیت پیدا ہونے پر منحصر تھا آپ کس منزل پر بیعت کرنے کی اجازت مرحمت فرماتے اور اجازت وخلافت کی ذمہ داری کب اور کس کو سپرد کرتے یہ مولانا عاشق الٰہی صاحب کے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ میں پڑھئے:
’’آپ اکثر ذکر ہی کے ساتھ مراقبہ تعلیم فرمادیتے تھے مثلاً یہ کہ ذکر میں لفظ اللہ کے ساتھ یہ تصور کرو کہ منہ سے ایک نور نکل رہاہے جو ذاکر کو اور تمام عالم کو محیط ہے اور جب اس کے اثرات ظاہر ہونے لگتے تو مراقبہ معیت تعلیم فرماتے کہ ذکر کے وقت حق کا تصور کرو کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور پھر اس تصور کو ہر وقت اور ہر حال قائم رکھو کہ اللہ ساتھ ہے مگرنہ جسم ہے نہ جہت نہ کوئی صورت ہے نہ کوئی کیفیت ان تصورات کے قائم ہوجانے پر طالب کی جو حالت ہوتی تھی اس کو وہی خوب جانتاہے جس پر گزری اور جس نے اس طریق کو طے کیا ہے مجھے جہاں تک علم ہے ان تصورات کے قائم ہوجانے پر حضور مع اللہ کی شان پیدا ہوجاتی تھی اورپھر حضرت منتظر رہتے تھے کہ اس میں قوت اور شان تمکین پیدا ہوجائے کہ کسی وقت بھی ذہول وغفلت نہ ہو اور کوئی مشغلہ خواہ دنیا کا ہو یا دین کا اور کوئی حادثہ خواہ موت کا ہو یا ولادت کا اس حضور کو نہ مٹا سکے اسی کو اصل نسبت فرمایا کرتے اور اسی کے پختہ ہوجانے پر بیعت کی اجازت عطا فرمادیا کرتے تھے۔ جب تک اس حضور کا تمکن اور جذر قلب میں بیٹھ جانا حضرت نے اپنی فراست وروحانیت سے جانچ نہیںلیا کتنے ہی حالات عجیبہ اور واردات حسنہ سالک پر کیوں نہ پیش آئے ہوں مگر آپ مجاز طریقت ہرگز نہ بناتے ہاں دلد ہی فرماتے اس کے شوق کو بڑھاتے واردات سے اس کی نظر ہٹاتے۔‘‘
(تذکرۃ الخلیل:۴۱۶)
چودھواں باب
افکاروخیالات اور دینی امور میں آپ کا مسلک ومشرب