حضرت مولانا صرف ایک علمی ودینی شخصیت کے مالک ہی نہ تھے بلکہ ایک صاحب استعدادمدرس، وسیع النظر مصنف، بلند پایہ منتظم اور عالی مرتبت شیخ۔۔۔اور روشن ضمیر عالم تھے۔ بلا شبہ آپ کا شمار ان ممتاز مشائخ اور اصحاب قلب ونظرکی فہرست میں ہوتاہے جن کو خدا نے اپنے اپنے دور کی علمی ودینی قیادت اور امامت کا درجہ عطا فرمایاتھا۔
حضرت مولانا ایک طرف مسند درس پر جلوہ افروز نظر آتے ہیں اپنی زبان گہر بار سے علمی موشگافیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف مسند ارشاد پر متمکن ہیں ہزاروں حلقہ بگوش مریدان باصفا اور طالبین سلوک ہیں جو آپ کی توجہ ،تعلیم وتربیت، ملفوظات اور باطنی نکات سے اپنے قلب ونظر کو روحانی سکون دے رہے ہیں علماء وعوام کا ایک وسیع حلقہ ہے جو آپ کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے آپ کے مشوروں سے اہل سیاست آپ کے نظرئیے اور طرز فکر سے اہل دعوت وعزیمت بھی مستغنی نظر نہیں آتے۔ ہمعصر علماء ومشائخ اور اہل قلب ونظر آپ کے علم وفضل آپ کی اصابت رائے آپ کے تدبر کے معترف اور آپ کی شان میں بلند الفاظ استعمال کرتے نظر آتے ہیں ، علماء زمانہ کے اعتراف کے علاوہ خود آپ کے افکاروخیالات اور آپ کا مشرب ومسلک آپ کی وسعت نظر اور روشن ضمیری کی دلیل ہے زیر نظر باب میں آپ کے افکاروخیالات کو پیش کیاجاتاہے۔
دین کے اصول وفروع اور اعتقادات کے بارے میں آپ کا مسلک ومشرب:
حضرت مولانا دین کے اصول وفروع اور اعتقادات میں سلف صالحین اور اپنے مشائخ اہل سنت کے پیرو تھے آپ اس طبقہ علماء سے تعلق رکھتے تھے جس نے ہمیشہ احیاء سنت کا عظیم کام انجام دیا ہے اس طبقہ کے سرگروہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالیٰ تھے اور ان کے بعد ان کے خلفاء نیز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے خاندان خصوصا حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث حضرت شاہ اسماعیل صاحب شہید شیخ الاسلام حضرت مولانا عبدالحی صاحب بڈھانوی مولانا شاہ اسحاق صاحب دہلوی اور مشرقی یوپی میں حضرت سید احمد شہید رحمہم اللہ تعالیٰ اور ان کے خاندان کے علماء اور ان کے خلفاء اور مجازین نیز منتسبین نے اپنی کوششوں جدوجہد اپنے علم وفضل اور تربیت وسلوک کے ذریعہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں احیاء سنت کاکام انجام دیا اورجہاں تک ان کو خدانے توفیق بخشی شرک وبدعت کی بیخ کنی کی ان اسلاف کے سچے جانشینوں نے آخر آخر زمانہ تک ان کے نقش قدم پر چل کر کتاب وسنت کی شمعیں جلائیں اور شرک وبدعت کے چراغ گل کئے، ان بزرگوں میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب،حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی حضرت مولاناخلیل احمد صاحب سہارنپوری کے اسماء گرامی ناقابل فراموش ہیں۔ یہ سب سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی کے حلقہ بگوش اور معتمد علیہ خلفاء میں سے تھے حضرت حاجی صاحب نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ان سب پر مکمل اعتماد کیا اور ہمیشہ محبت بھرے الفاظ میں ان کو یاد کیا ایسے دور میں جبکہ ان بزرگوں کی جدوجہد اہل بدعت وشرک کے خلاف جاری تھی اور ہندوستان میں اہل بدعت کی طرف سے تحریرا وتقریرا ایک ہنگامہ برپا تھا الزام تراشیوں اور سخت ترین خطابوں سے ان بزرگوں کو نوازا جارہا تھا اور حضرت حاجی صاحب نے جس طرح اپنے ان محبوب خلفاء ومجازین کا ساتھ دیا وہ ان