’’شیخ پورہ کی دعوت کا ایک قصہ جس میں یہ ناکارہ خود بھی شریک تھا اور حضرت حکیم الامت تھانوی نور اﷲمرقدہ بھی شریک تھے اس کو حضرت نے تحریر فرمایا ہے۔تحریر فرماتے ہیں کہ ایک بار سہارنپور میں بڑے جلسہ (سالانہ جلسہ مظاہر علوم )میں جانا ہوا جلسہ سے اگلے روز شیخ پورہ والوں نے حضرت مولانا سہارنپوری اور دیگر بعض مہمانوں کو مدعو کردیا چلتے وقت سہارنپور کے ایک تاجر چانول نے اگلے روز صبح کی دعوت کردی مولانا نے دعوت منظور فرمالی اور شیخ پورہ چلے گئے ،شب کو وہاں رہے ،صبح کے وقت چھاجوں پانی پڑرہا تھا مگر چونکہ مولانا نے وعدہ کرلیا تھا اس وجہ سے اسی حالت میں واپسی ہوئی ۔جب سہارنپور اترے میں بھی (حضرت حکیم الامت)ہمراہ تھا راستہ میں وہ صاحب جو دعوت کرگئے تھے سڑک پر جاتے ہوئے ملے مولانا نے پکار کربلایا اور اپنے آنے کی اطلاع کی تو آپ کہتے ہیں حضرت دعوت کا کچھ انتظام نہیں ہوا مجھ کو واپسی کی امید نہ تھی مولانا نے فرمایا اچھا بھائی پھر سہی ،اس نے کل صبح کا وقت معین کیا اور تبسم سے فرمایا کہ ظالم نے شام کا وقت بھی تو نہ کہا ،اس گفتگو سے میرے غصّہ کی کچھ انتہا نہ تھی مولانا چونکہ بزرگ تھے ان کے سامنے کچھ نہ کہہ سکا مجھے بھی صبح دعوت میں شریک ہونے کا حکم ملا میں نے عرض کیا،حضرت مجھے تو صبح صبح بھوک نہیں لگتی ہے فرمایا اگر بھوک ہوکھالینا ورنہ مجلس ہی میں بیٹھ جا نا میں نے عرض کیا بہت اچھا صبح کے وقت پر پھر ہم سب گئے مگر میں غصہ میں بھرا ہوا تھا کوٹھے کے اوپر کھانا کھلایا میں عذر کرکے مولانا سے رخصت ہوگیا اور اس دعوت کنندہ سے مولانا کے سامنے تو کہنے کا موقع نہ ملا اس لئے نیچے بلایا اور اچھی طرح اس کے کان کھولے اور کہا کیا بزرگوں کو بلا کر ایسی ہی تکلیف اور اذیت دیا کرتے ہیں تجھے تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مولانا شیخوپورہ سے تشریف نہ بھی لاتے تب بھی انتظام کرتا اس نے آئندہ کے لئے توبہ کی۔(آپ بیتی ۶/۲۸۳ بحوالہ ارواح ثلاثہ)
سخاوت و فیاضی:
حضرت مولانا کے اوصاف و کمالات میں ایک بڑا وصف جود وسخا کابھی تھا فیاضی آپ کی فطرت ثانیہ تھی ،جو کچھ آپ کے پاس آتا وہ دوسروں کے کام آتا آپ نے کبھی کسی سائل یا کسی چیز کے خواہشمند کی خواہش کو جس کوپورا کرنا آپ کے اختیار میں ہو رد نہیں فرمایا،ایک مرتبہ مولوی حبیب الرحمٰن سیوہاروی نے بجائے آپ سے کہنے کے حاجی مقبول احمد صاحب سے جو آپ کے منتظم کار اور برادر نسبتی تھے عرض کیا کہ حضرت سے ایک عربی رومال لینے کا جی چاہتا ہے کچھ دنوں کے بعد جب مولوی حبیب الرحمٰن صاحب حاضر خدمت ہوئے اور حضرت مولانا سے نیاز حاصل ہوا تو آپ نے خود فرمایا۔
حافظ جی تم نے حاجی جی سے رومال کوکہا تھا۔
اور اتنا فرماکر وہ رومال جو آپ اپنے سر پر باندھے ہوئے تھے اتار کر مولوی صاحب کو دے دیا رومال قیمتی بھی تھا اور حضرت مولانا کا مستعملہ بھی۔
مولوی عبداﷲجان صاحب اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔
’’رمضان کا مہینہ تھا اتفاق سے میری ساری گھڑیاں مرمت کے لئے گئیں تھیں جس کی وجہ سے ایک گونہ تکلیف تھی حضرت کے پاس حاضر ہوا تو سرسری طور پر اس کا ذکر آگیا حضرت خاموشی کے ساتھ اٹھے اور حجرے میںسے ایک جیبی گھڑی لاکر مجھ کو دیدی اس وقت