حضرت تھانوی ؒ کے ایک خلیفہ سید شیر محمد صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہ پیرزادے اور مولوی اکثر محروم کیوں رہتے ہیںفرمایا’’پیرزادے تو باپ کے بعد اپنے کو پیر سمجھ بیٹھتے ہیں اور مولوی تحصیل علوم کے عالم فاضل ہوجاتے ہیں کہ آئندہ کسی شے کی ضرورت نہیں سمجھتے حالانکہ جب تک بزرگوں کے جوتے سیدھے نہیں کئے جاتے تب تک حالت نہیں بنتی۔‘‘
ذکر بالجہر سے شہرت کا اندیشہ نہیں ہے:
کسی خادم نے لکھاکہ حضرت ذکر بالجہر سے شہرت کا اندیشہ ہے کہ لوگ کہیں گے بزرگ ہوگئے اور ریا کا احتمال ہے اس پر فرمایا’’انشاء اﷲ انشاء اﷲ شہرت کا اندیشہ نہیں اس زمانہ میں تو ایسے لوگوں کو جو اﷲ تعالٰی کا نام لیں یا علم دین پڑھیں پاگل سمجھتے ہیں پھر ریاکار کیا موقع ہے،ریا تو ان افعال میں ہوتی ہے جولوگوں کے نزدیک اچھے سمجھے جاویں۔‘‘
ذکر باوضو ہونا چاہئے:
فرمایا’’ذکر باوضو ہونا چاہیئے بلکہ درویش سالک کو ہر وقت باوضو رہنا چاہئے اور اسم ذات ہو یا نفی اثبات ،اطمینان کے ساتھ خوب ٹہرکر کرنا چاہئے اور معنی کا بغور لحاظ رکھنا چاھئے اور بہتر یہ ہے کہ آخر شب میں اٹھ کر تہجد کے بعد ذکر کرے کہ وہ برکت اور قبولیت کا وقت ہے اور طبیعت پر اس وقت سکون وانبساط بھی زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
میرا تعلق داڑھی کے ساتھ ہے
فرمایا کرتے تھے کہ ’’میرا تعلق داڑھی کے ساتھ ساتھ ہے داڑھی رہے گی تو میرا تعلق بھی رہے گا اور یہ ختم ہے تو وہ بھی ختم ہے۔‘‘
فرمایا کرتے تھے کہ ’’نصرانیت کا لباس ،داڑھی منڈانا یا کتروانا،عورتوں کا مردانہ وضع کا کھڑا جوتا پہننا،پردہ میں کمی کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب چیزیں طاعون اور ہیضے کی طرح وباء عام بن کر پھیلی ہوئی ہیں جس کو دیکھو اس مرض میں مبتلا ہے الا ماشاء اﷲ ان کے نزدیک گویا داڑھی رکھنا شعار اسلام اور طریقہ محمدیہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی صورت سے بھی وحشت ہے،ایسی حالت میں حق تعالیٰ کا محبت حاصل ہونا ناممکن ہے۔‘‘
سالک کو حرام و مشتبہ چیزوں سے بچنا چاہیئے:
فرمایا کرتے تھے کہ ’’سالک کو حلال لقمہ اپنے پیٹ میں پہنچانا چاہیئے تاکہ نورانیت پیدا ہو اور حرام بلکہ مشتبہ سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے ظلمت پیدا ہوتی ہے۔‘‘
ہدیہ اور تحفہ مخلصین سے لینا چاہئیے:
فرمایا کرتے تھے’’ہدیہ و تحفہ صرف ان لوگوں کا قبول کرنا چاہیے جو محبت یا دینی تعلق غرضِ جائز کی وجہ سے پیش کرتے ہوں اور ایسے لوگوں سے نہ لینا چاہیئے جو منصب اور عہدہ ملازمت کی وجہ سے ناجائز ضرورت پورا کرنے کو دیں۔‘‘