طالبین سلوک یا اپنے سے ادنیٰ بھی تعلق رکھنے والے کو ہدایت فرماتے رہتے تھے مثال کے طور پر غیبت، چغلی، سود،رشوت جو انسانی معاشرہ میں وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہیں آپ ان کی نشاندہی فرماتے رہتے تھے اگرآپ کو محسوس ہوتا کہ کوئی شخص سودلے رہاہے یا دے رہا ہے یا کسی پر سودی قرضہ ہے تو تاکید فرماتے کہ اس لعنت سے محفوظ رہے آپ نے ایسے موقع پر تحریر فرمایا:
’’اس بلائے بے درماں سے جہاں تک ممکن ہو جلد نکلو اور فاقہ کرو تنگی جھیلو ضروریات کو بند کرو مگر اس وبال سے کسی طرح نجات پاؤ۔‘‘
اسی طرح ظاہری وضع قطع ، لباس میں تشبہ بالکفار سے یا تشبہ بالمنافقین یافاسقین حتی کہ خدا بیزار اور غیر دیندار لوگوں کی وضع قطع اختیار کرنے سے سخت نالاں اور ناراض ہوتے اور کسی حال میں بھی اس کو برداشت نہ کرتے۔ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی آپ کے اس طرز عملی کو اس طرح پیش کرتے ہیں:
’’ڈاڑھی کا منڈانا یا کتروانا کہ ایک مشت سے کم ہوجائے آپ کے لیے بہت تکلیف دہ تھا میں نے بارہا دیکھا کہ کوئی اجنبی آتا جس پر خفگی کا کوئی حق نہ ہوتا تو آپ باکراہ اس سے گفتگو کرتے اور گرانی کے سبب منہ پھیر لیا کرتے کہ ایسی حالت کا دیکھنا آپ کو برداشت نہ ہوتا تھا کوئی شخص بیعت ہوتا تو سب سے اول اور سب سے زیادہ تاکید اسی کی ہوتی تھی کہ آیندہ کبھی داڑھی نہ کتروانا اور کسی خادم کو اس کا مرتکب پاتے تو اول تیزی سے اور پھر غصہ سے نصیحت فرماتے اور آخری تیسری بار صاف فرمادیا کرتے تھے کہ میرا تعلق داڑھی کے ساتھ ساتھ ہے یہ رہے گی تو وہ بھی رہے گا یہ قطع ہے تو اسی وقت وہ بھی قطع ہے، نیز فرمایا کرتے تھے کہ نصرانیت کا لباس داڑھی منڈانا یا کتروانا عورتوںکا مردانی وضع سے انس، کھڑا جوتا پہننا، پردہ میں کمی کرنا، وغیرہ طاعون اور ہیضہ کی طرح وبائے عام بن کر پھیلے ہوئے ہیں کہ جسے دیکھو اس مرض میں مبتلا ہے الا من شاء اللہ ان کے نزدیک گویا داڑھی رکھنا شعار اسلام اور طریقہ محمدیہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی صورت سے بھی وحشت ہے ایسی حالت میں محبت حق کاحصول ناممکن ہے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۴۶۶)
سیاسی مسلک اور عملی کردار:
حضرت مولانا خلیل احمد صاحب اگرچہ خالص علمی اور دینی واصلاحی میدان کے آدمی تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں آپ کے ذریعہ بڑی خدمت لی اور ہزاروں تشنگان علم وعرفان کو سیراب کیا لیکن ملکی حالات سے بھی آپ بے خبر نہ تھے بلکہ جو کچھ مسلمانوں کی بہبودی اور ترقی کے لیے کوشش کرسکتے تھے کرتے تھے حضرت شیخ الہند کی تحریک آزادی ہند جاری تھی آپ نے حضرت شیخ الہند کاساتھ دیا اور ان کی ہم نوائی کی پہلی جنگ عظیم کے دوران جب ترکوں کو شکست ہوئی اور بعد میں خلافت عثمانی کاخاتمہ ہوا انگریزوں کااقتدار بڑھا اور ان کی گرفت مضبوط ہوئی حضرت شیخ الہند نے استخلاص وطن کی تحریک چلائی اور اس راہ میں بڑی مصیبتیں اٹھائیں حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی تحریر کرتے ہیں:
حضرت کی گہری نظر واقعات عالم بالخصوص ہندوستان اور ترکی پر مرکوز رہتی تھی طرابلس اور بلقان کے زہرہ گداز مظالم اور اندرون ہندمیں انگریزوں کی روز افزوں چیرہ دستیوں نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ آرام وچین تقریبا حرام ہوگیا گویا وہ اپنے اختیار سے نکل