مکروہ اور غیر مستحسن خیال کرتاہوں۔‘‘ (اکابرکے خطوط)
اسی مکتوب میں آگے چل کر آپس کے نزاع کو وہ سخت ناپسندیدہ خیال کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’حالات حاضرہ میں مسلمانوں کے لیے صبرواستقلال کی ضرورت ہے اور نیز اس کی بھی سخت ضرورت ہے کہ آپس کی فضول منازعت ومنافرت بالکل ترک کی جائے کہ ارشاد ہے ولا تنازعوا فتفشلوا صبروتحمل اور اخلاص کے ساتھ مسلمانوں کی بہبودی کے لیے جدوجہد کرنا نہایت مبارک ہے اور کامیابی انشاء اللہ ضرور ہمرکاب رہے گی۔‘‘
موالاتِ کفر غیرپسندیدہ عمل:
حضرت مولانا کفار ومشرکین سے موالات کے سخت مخالف تھے خواہ وہ موالات وقتی ہوں یا عارضی آپ کے نزدیک موالات بہرحال موالات ہے اور ا س میں کسی طبقہ یامذہب کی تفریق کے قائل نہ تھے اس زمانہ میں مسلمان دوحصوں میں بٹے ہوئے تھے ایک طبقہ اہل کتاب سے موالات کا قائل تھا دوسرا طبقہ برادران وطن سے۔ آپ اس افراط وتفریط کے خلاف تھے آپ کے نزدیک مخالف اسلام ہر جماعت سے موالات کرناغیر اسلامی فعل اور خدا کی ناراضگی کا سبب ہے آپ صاف صاف تحریر کرتے ہیں:
’’کفار کے ساتھ موالات خواہ وہ نصاریٰ ہوں یا مشرک قطعاحرام ہے اس میں کسی مسلمان کو چوں چرا کی گنجایش نہیں اور تعلقات خواہ وہ تعلقات بطور قرابت کے ہوں جیسے نکاح اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ یا بطور لین دین کے ہوںیا بطور ملازمت کے اور کسی دوسری طرح سے ہوں اگر وہ شرعا ناجائز ہے تب تو ان کا ترک واجب ہے اور اگر وہ فی نفسہ جائز ہی ہوں تب بھی مسلمانوں کے لیے ہر ملک اور ہر زمانے میں عموما اور ممالک الامی اور بلادمقدسہ کے خطرے کی حالت میں خصوصاان سب کاترک مفید مستحسن سمجھتاہوں بالخصوص جبکہ مسلمانوں کے حقوق کے خلاف دشمنان اسلام کی تقویت یا ایسی تدابیر میں معاونت کا باعث ہوں جن سے مذہب وعظمت اسلام کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کااندیشہ ہو بشرطیکہ حدود واستطاعت سے خارج نہ ہو۔
قال اﷲ تبارک وتعالیٰ :{ لایکلف اﷲ نفسا إلا وسعہا }
میرے نزدیک إنما ینہاکم اﷲ عن الذین قاتلوکم فی الدین وأخرجوکم من دیارکم وظاہروا علی إخراجکم کا مصداق فقط نصاریٰ ہی نہیں ہیں بلکہ مشرکین ہنود بھی ہیں۔‘‘(اکابر کے خطوط)
کفارسے اتحادواتفاق صرف معاشرتی امور میں:
حضرت مولانا اس کے بالکل روادار ہ نہ تھے کہ غیر مسلموں سے اتنی حد تک تعاون کیاجاوے کہ اسلام کے حدود سے بھی تجاوز ہوجانے کابھی خیال نہ کیا جاوے آپ ایسے اتحادواتفاق کے شدید مخالف تھے جس میںکسی ادنیٰ سے ادنیٰ امر شرعی کا بھی ترک ہوتا ہو آپ نے ایسے موقع پر جبکہ مسلمان اہل علم کی طرف سے بھی کوشش کی جانے لگی کہ مسلمانوں کو اہل وطن کی خوشنودی کی خاطر بعض شعائر اسلامی کو چھوڑدینا چاہیے حق کی آواز بلند کی اور غیر مبہم لفظوںمیں اپنے خیال کااظہارکیا۔