ان اشعار کے بعد ’’بذل المجہود ‘‘کی تعریف و تو صیف میں چند اشعار اور ہیں جو طوالت کی وجہ سے چھوڑ ے جاتے ہیں:
علمائے عرب و عجم کے ان تاثرات کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوگا کہ حضرت مولانا کی شخصیت کتنی بلند و بالا اور شان کتنی عالی تھی۔
اب ہم حضرت مولانا کے مختلف اوصاف و کمالات کا الگ الگ ذکر کرتے ہیں۔
اتباع سنّت:
حضرت مولانا کا سب سے بڑا وصف کمالِ اتباع سنت تھا کہ آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں خواہ وہ عبادت سے تعلق رکھتا ہو یا معاشرت سے قدم قدم پر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرماتے اور کسی حال میں بھی اس بارے میں سرِموفرق نہیں آنے دیتے تھے ،سنن و نوافل کا بھی بڑا اہتمام فرماتے ،ہروقت باوضو رہتے ،عموماً سنتیں گھر پر ادا کرتے ،آپ نماز کے ہر جز و میں سنت و استحباب کی رعایت کرتے ایک بار فرمایا کہ،’’جمعہ کے دن فجر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ آلم تنزیل السجدہ اور سورۃ الدھر پڑھا کرتے تھے شافعیہ نے تو اس کا واجب کی طرح التزام کرلیا ہے کبھی ترک ہی نہیں کرتے اور حنفیہ نے اس کے ترک کا التزام کرلیا کہ کبھی نہیں پڑھتے دونوں فعل سنت کے خلاف ہیں ،اولیٰ یہ ہے کہ جمعہ کے دن ان کو اکثر پڑھاجائے احیاناً ترک بھی کردے۔‘‘آپ نماز کامل خشوع و خضوع اختیار کرتے ،مولوی عبداﷲ جان لکھتے ہیں:
’’ایک خاص واقعہ جو میں نے حضرت کے متعلق ہمیشہ نوٹ کیا اور وہ میرے دل پر نہایت مؤثر رہا ہے یہ ہے کہ ادائے نماز کی حالت میں بمصداق کانک تَرَاہ حضرت پر وقار اور خشوع و سکینہ کی ایک خاص حالت طاری رہتی تھی بحمداﷲ بچپن سے میری تعلیم و تربیت اور نشست وبرخاست علماء کرام کی صحبت میں رہی ہے مگر حضرت کے سوا میرے ذہن میں اور کوئی مثال نہیں جس کو حضرت کی نماز کے مماثل کہہ سکوں‘‘
حضرت مولانا کے نماز میں خشوع و خضوع اور کمال اتباع سنت کے متعلق مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی لکھتے ہیں:
’’حضرت کی نماز جس نے بھی دیکھی وہ کہہ سکتا ہے کہ شاید عمر بھر ایسی نماز نہ دیکھی ہوگی قیام کی حالت میں کیا مجال کہ اِدھر اُدھر میلان ہو سیدھے ایسے سکون کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے کہ حرکت نام کو نہ تھی پھر قیام بھی طویل ہوتا تھا اور عمر بھی ضعیفی و پیری کی تھی مگر آپ کا سکون دیکھ کر جوانوں کو شرم آتی تھی۔‘‘
ہرچند پییرو خستہ وبس ناتواں شدم
ہر گہ نظر بسوئے تو کہ دم جواں شدم
اس کے بعد رکوع بھی موافق سنت،سجدہ بھی موافق سنت،ہر رکن میں پوری تعدیل اور ہر جزو میں کامل سکون،سنن و آداب و مستحباب کی پوری رعایت کہ جی چاھتا تھا حضرت کی نماز کو دیکھے جاؤں اور کتابوں میں جو تفصیل پڑھی ہے اس کا مجموعہ مفصل نظرمیں ڈال لوں۔‘‘
اپنے اس تاثر کا ذکر کرکے مولانا میرٹھی نے ایک ایسا واقعہ لکھا ہے جس کو پڑھ کر یہ تاثر بھی دل میں پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی نماز