سوالہواں باب
ہمعصر علماء اور مشائخ کی رائیں
کسی شخص کے فضل و کمال اور علو مرتبت کو سمجھنے کے لئے اس دور کے اہل فضل وکمال ،علماء و مشائخ اور اصابت رکھنے والے حضرات کا اس کے متعلق خیال اور رائے بڑی اہمیت رکھتی ہے حضرت مولانا کے بچپن سے انتقال تک ہندوبیرون ہند میں اہل فضل وکمال کی اچھی خاصی تعداد تھی ،ان میں بعض بڑے عظیم المرتبت علماء و مشائخ اور مرجع خلائق تھے،سید الطائفہ حضرت حاجی امداداﷲ صاحب مہاجر مکی،حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی،حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری ،شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب ،حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اور انکے بعدمولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری، مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی ان علماء و مشائخ میں ہیں جن کے فضل و کمال،اصابت رائے جو ہرشناسی اور نظر کی کیمیا اثری سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ،حضرت مولانا کے متعلق ان بزرگوں کی کیا رائے تھی اور وہ آپ کو کس نظر سے دیکھتے تھے دوسرے اہل علم اور اصحاب قلب و نظر اور حجاز و نجد و مصر کے علماء کاآپ کے متعلق کیا تاثر اور رائے تھی وہ آنے والے صفحات میں ملاحظہ کیجئے۔
سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی:
حضرت مولانا اگر چہ حضرت گنگوہی سے بیعت تھے اور بیعت ہوئے تقریباً ۹،۱۰ سال ہوچکے تھے کہ حج کو تشریف لے گئے اور حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت حاجی صاحب نے آپکے احوال دیکھے اور اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور اپنا عمامہ آپ کے سر پر باندھا اور جب تک حیات رہے آپ سے راضی اور خوش رہے ۱۳۰۴ھ میں حضرت مولانا نے ’’براہین قاطعہ‘‘کتاب لکھی جس کی بنا پر اہل بدعت نے حضرت حاجی صاحب سے شکایت کی اور بدظن کرنا چاہا مگر حضرت حاجی صاحب بجائے بددل ہونے کے خوش اور راضی رہے اور اپنے والا ناموں سے اپنی خوشی و مسرت ،رضا مندی و خوشنودی کا اظہار فرماتے رہے مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی جو حضرت گنگوہی کے اخص الخواص خدام و تلامذہ میں تھے وہ حضرت مولانا