کے متعلق اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے حضرت حاجی صاحب نوراﷲ مرقدہٗ کی حضرت مولانا کے متعلق وہ رائے بیان کرتے ہیں جو یقیناً سند کا درجہ رکھتی ہے وہ بیان کرتے ہیں۔
’’میں نے اعلی حضرت حاجی صاحب کا ایک والا نامہ حضرت کی بیاض میں خود دیکھا ہے جس میں حضرت (حضرت مولانا خلیل احمدصاحب)کی نسبت تحریر فرمایا تھا تم میرے سلسلہ کے فخر ہو مجھے تم سے بہت خوشی اور مسرت ہے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۲۵۳)
حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی:
۱۲۸۸ھ سے لے کر ۱۳۲۳ھ تک پورے پینتیس سال حضرت مولانا اپنے شیخ و مرشد حضرت گنگوہی کی خدمت میں آتے جاتے رہے اور بڑی مدت تک مکاتیب کا سلسلہ جاری رہا اور منازل سلوک طے کرتے رہے اور باطنی کمال حاصل فرمایا اور اپنے شیخ و مرشد کی خوشنودی ،اطمینان اور اعتماد حاصل کیا ،ان مکاتیب کا مطالعہ جو حضرت گنگوہی کے آپ کے نام ہیں طالبین سلوک کے لئے بہت مفید ہے ان کے پڑھنے سے جہاں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اﷲتعالیٰ نے تصوف و سلوک میں بلند درجہ عطا فرمایا تھا وہاں آپ سے حضرت گنگوہی ہی کی انتہائی محبت اور تعلق کا پتہ چلتا ہے ۔حضرت گنگوہی نے ان مکاتیب میں جن بلند الفاظ سے آپ کو یاد فرمایا ہے وہ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
-1اپنے ایک مجاز مولانا صدیق احمد صاحب انبٹہوی کو تحریر فرماتے ہیں۔
’’مولوی خلیل احمد کی نسبت بسیط ہے کہ حضور میں اعلیٰ درجہ کو پہونچے۔‘‘
(مکاتیب رشید ۲۶)
-2اپنے ایک مکتوب گرامی میں خود حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کو تحریر کرتے ہیں:
’’آپ کے حسن احوال سے دل کو سرور ہوا جس قدر ہوسکے اپنے شغل یاداشت میں مشغول رہیں حجاب سیاہ سے ہراساں نہ ہوویں جب وقت آوے گا یہ حجاب خود معین کار ہوجائے گا نور نفی بن جاوے گا۔نفی عبارت ہے اس سے کہ وسعت بے نہایت بھی ایک قید ہے اس کو رفع کردیوے سو وہ اختیاری نہیں کیفما کان جس قدر ہوسکے مشغول رہو۔
کارکن کار بگزار از گفتار
کاندریں راہ کا ردازد کار
تمہاری بہبودی سے توقع کرتا ہوں کہ خود بھی کچھ نفع پاؤں کہ تم نے بحسن ظن دلیل (رہبر)بنایا ہے ورنہ اپنی شومی کیا کہوں اول تو کچھ حاصل نہ ہوا تھا اگر طفل تسلی اپنی کی تھی اب ضعف قوت اور ہمت نے اس سے بھی جواب دیا ،سو خیر دوستوں کی وجہ سے شاید کچھ حصہ مل جاوے اب التفات بندہ کا آپ کیطرف سائلانہ معطیانہ ہے من دق باب الکریم انفتح حق تعالیٰ آپ کو فتح یاب نصیب فرماوے۔‘‘(مکاتیب رشیدیہ:۴۰)
-3ایک اور مکتوب گرامی میں کتنے بلند الفاظ ارشاد فرماتے ہیں۔