انہوں نے خاص خاص طرق ذکر کرکے نکالے تاکہ کثرت ذکر سے حق تعالیٰ کے ساتھ خاص تعلق پیدا ہوجاوے خواہ اس کو علاقہ محبت کہو یا بندگی اور نیاز مندی کا۔ تو مقصود اذکار واشغال سے ٹھہرا کہ اسم کی کثرت اور تکرار سے مسمی یعنی حق تعالیٰ کاحضور ہوجاوے۔ اسی کو حدیث شریف میں احسان سے تعبیر فرمایا ہے اور أن تعبدربک کأنک تراہ اس کا حاصل اور مدلول ہے باقی رہیں کیفیات اورحالات یہ امور زائدہ ہیں مطلوب اور مقصود لذاتہ نہیں کسی کو ہوتی ہیں اور کسی کو نہیں ہوتیں شیخ محی الدین بن عربی نے فرمایا ہے الکیفیات تربی بہا اطفال الطریقہ ، طریق باطن کے بچے ان سے پرورش کئے جاتے ہیں، پس طالب کو لازم ہے کہ مقصود کی طرف ملتفت اور متوجہ رہے اور غیر مقصود کے درپے نہ ہو۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۴۴۶)
مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی کو جب حضرت مولانا نے بیعت فرمایا تو تصوف وسلوک کی حقیقت اور مقصد پر اس طرح تقریر فرمائی:
’’سلوک کا مقصود یہ ہے کہ بندہ کا دل حق تعالیٰ کی مرضیات کا ایسا طالب ہوجائے جیساکہ جسم غذا کا طالب ہے اور اس کو عبادت کی ایسی خواہش ہو جیسی جسم کو غذا اور پانی کی خواہش ہوتی ہے اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب کہ دل حق تعالیٰ کی عظمت ومحبت سے پرہوجائے اور ماسوی اللہ کی محبت وعظمت سے خالی ہوجائے جب تک اغیار کی محبت وعظمت اس درجہ میں قائم ہے کہ عظمت ومحبت حق سے مزاحمت کرتی ہے اس وقت وہ مرضیات حق کا طالب نہیں ہوسکتا اور نہ معاصی سے پوری طرح بچ سکتاہے، پس اب دو چیزیں ضروری ہوئیں، ایک تخیہ کہ دل کو اغیار سے پاک کیا جائے اور دوسرے تجلیہ کہ دل کو محبت وعظمت حق سے پر کیاجائے پہلے زمانے میں مشائخ ان دونوں کی الگ الگ تعلیم کرتے تھے مگر اب چونکہ عمریں قصیر ہیں اور افکار ومشاغل بھی زیادہ ہیں اس لئے اس وقت مشائخ نے ایسا طریقہ تجویز کیا ہے جس میں دونوں مقصود ساتھ ساتھ حاصل ہوجاتے ہیں، اور وہ طریقہ کثرت ذکر ہے کہ طالب حق تعالیٰ کے ذکر میں اس درجہ مشغول ہو کہ یاد الٰہی اس کے ہر بن مومیں سرایت کرجائے اس سے دل محبت وعظمت سے پر ہوجاتاہے اور اغیار کی محبت وعظمت سے خالی ہوجاتاہے اور اسی سے مرضیات الٰہیہ کاشوق بڑھتا ہے اور اس کی طلب دل میں مستحکم اور معاصی سے نفرت قوی ہوجاتی ہے کیونکہ جب وہ کسی مصیبت کا ارادہ بھی کرتاہے تو اس کے دل میں ایک وحشت وضیق اور ظلمت وبے چینی پیدا ہوتی ہے جو غیر ذاکر کے دل کومحسوس نہیں ہوتی اس سے پریشان ہوکر وہ معصیت پراقدام کرنے سے رک جاتاہے اور اگر اتفاقا معصیت کا صدورہوجائے تو وحشت ودل تنگی ترقی پکڑ کر اس کو بہت جلد توبہ کی طرف مضطرب کرتی ہے کہ بدوں سچی توبہ کے اس کو چین نہیں پڑتا اور کثرت ذکرکے دو طریقے ہیں ایک وہ جو مشائخ کا معمول ہے مثلا ذکر نفی اثبات اور ذکر اسم ذات وغیرہ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جو دعائیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات اور مختلف حالات کے متعلق ارشاد فرمائی ہیں ان پر مواظبت کی جائے۔ میرے نزدیک ان دونوںکوجمع کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل۴۱۳۔۴۱۲)
طلب صادق کا امتحان:
جب بھی کوئی بیعت کی درخواست کرتا تو آپ اس کے طلب صادق کا امتحان لیتے اور بعض دفعہ ایک عرصہ تک ٹالتے اور دوسری