آنکس کہ ترا شناخت جاں راچہ کند
فرزند وعیال وخانماں راچہ کند
دیوانہ ہر دودجہاں را بخشی
دیوانہ تو ہر دو جہاں راجہ کند
(تذکرۃ الخلیل:۴۵)
معمولات اور نظام الاوقات:
حضرت مولانا کے معمولات اور نظام الاوقات کا تین قسموں میں تقسیم کرنا مناسب ہے ، پہلا عمومی جو عام دنوں گھر پر رہا کرتے تھے دوسرے قسم کے معمولات سفر کے دوران رہتے تیسرے معمولات رمضان المبارک میں ہوا کرتے، پہلے تو قیام گاہ کے معمولات پیش کئے جائیں گے اس کے بعد دوسرے، اگر چہ آپ کے معمولات سفر میں حضر میں اور رمضان مبارک میں یکساں ہوتے تھے اور کوئی خاص فرق ان میں نہیں ہوتا تھا لیکن تھوڑی بہت تبدیلی اور کمی بیشی ہوجاتی تھی۔
حضرت شیخ الحدیث صاحب مدظلہ آپ کے معمولات کا اس طرح اظہار کرتے ہیں:
’’حضرت قدس سرہ کا معمول بارہ مہینے صبح کی نماز کے بعد سے تقریباً اشراق تک سردیوں میں حجرہ کے کواڑ بند کرکے اور شدید گرمی میں مدرسہ قدیم کے صحن میں چارپائی پر بیٹھ کر اوراد کا معمول تھا اس میں مراقبہ بھی ہوتا تھا بارہ مہینے اشراق کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ۳۵ھ سے پہلے بخاری اور ترمذی شریف کے سبق کا وقت تھالیکن ۳۵ھ کے بعد بذل کی تالیف کا وقت ہوگیا تھا جو ہر موسم میں ۱۱-۱۲ بجے تک رہتا۔‘‘
قیام گاہ کے دن کے معمولات:
فجر کی نماز کے بعد آپ حجرے میں تشریف لے جاتے اور اشراق تک مراقبہ فرماتے پھر اشراق کی نماز کے بعد قضائے حاجت فرماتے فارغ ہونے کے بعد وضو فرماتے اور درس کے مبارک مشغلہ میں مشغول ہوجاتے آپ کا درس درسگاہوں میں ہوتاتھا۔ لیکن جب بذل المجہود کا کام شروع فرمایا اور اسباق کے درس سے فراغت ملی تو یہ وقت بذل کی ترتیب اور تالیف میں گزرنے لگا اسی دوران ڈاک آتی جو مدرسہ کا چپراسی لایا کرتا تھا اس ڈاک میں سے اپنے ذاتی خطوط نکال کر باقی خطوط مدرسہ کے مہتمم صاحب کے پاس بھیج دیتے تھے اور گیارہ بجے ان کاموں سے فارغ ہو کر اپنے مکان تشریف لے جاتے۔ مکان پر جاکر مہمانوں کے ساتھ کھانا