(ایضا: ۸۷)
حضرت مولانا کا اپنے شیخ و مرشد حضرت گنگوہی سے تعلق و محبت اور ادب و احترام کا یہ حال تھا کہ مرشد کی حیات میں ہمیشہ جب بھی کسی کوبیعت فرماتے تو آخرمیں ارشاد فرماتے تھے’’کہو بیعت کی میں نے حضرت مولانا رشید احمد صاحب سے خلیل احمد کے ہاتھ پر۔‘‘
اسی محبت و تعلق کا نتیجہ تھا کہ صاحبزادے جناب حکیم مسعود احمد صاحب کا انتہائی ادب کرتے ایک بار وہ سہارنپور آئے اور حضرت مولانا کی درخواست پر مدرسہ میں قیام فرمایا تو عرصہ تک تشکر و امتنان کے ساتھ فرماتے تھے کہ صاحبزادہ صاحب نے بندہ کی درخواست قبول فرماکر شرف میزبانی بخشا۔‘‘
صاحبزادی صاحبہ سے تعلق کے متعلق مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں۔
’’صاحبزادی صاحبہ سے حضرت کو خصوصی تعلق تھا کہ ماشاء اﷲ ہر قسم کے کمالات روحانیہ سے مالامال ہونے کے باوجود وہ حضرت کو پیر کی جگہ سمجھتی تھیں اور حضرت ان کو بڑی بہن سمجھا کرتے تھے ایک مرتبہ کچھ مستورات نے حضرت سے بیعت کی تو مخدومہ صاحبزادی صاحبہ نے بھی رومال تھام لیا اور بیعت ہوگئیں کہ اس وقت حضرت کو علم بھی نہیں ہوا مگر باوجود اسکے حضرت ان کی اس درجہ عزت فرمایا کرتے تھے کہ ماں زندہ ہوتیں تو بس اس سے زیادہ نہ کرسکتے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۸۷)
حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری:
حضرت گنگوہیؒ کے اجلہٗ خلفا میں حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری بھی تھے اور وہ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نوراﷲ مرقدہٗ سے محبت و تعلق کا ایسا معاملہ فرماتے تھے کہ ہمعصروں میں کم کسی کو ایسا تعلق ہوگا،جب حضرت مولانا مدرسہ مظاہر علوم میں صدر مدرس تھے اور آپ کے خلاف ہنگامہ برپا تھا ایسے وقت مولانا رائے پوری بے چین ہوہو کر رائے پور سے ہر دوسرے تیسرے روز آتے حالات دریافت کرتے اور ہمدردی و غمگساری کا جتنا بھی معاملہ کرسکتے کرتے ہر آڑے وقت کام آتے اور اپنی عقیدت تعلق ومحبت کا اظہار کیا ،باوجود اپنے علومرتبت اور علمی فضیلت کے حضرت مولانا کے حلقہ درس میں بیٹھے اور مسلسلات اور سورہ صف کی سند حاصل کی۔
حضرت مولانا جب سفر حج کو جانے لگے تو مدرسہ کے مدرسین نے درخواست کی کہ تشریف لے جانے سے پہلے مسلسلات کی سند و اجازت عطافرمادیں حضرت مولانا نے اس کو منظور فرمالیا اور ارشاد فرمایا اوپر جاکر بیٹھو میں آتا ہوں۔وہ اوپر جاکر بیٹھ گئے ،مولانا عاشق الٰہی صاحب بھی حضرت مولانا کے پیچھے پیچھے اوپر پہنچے تو دیکھتے ہیں۔
کہ حضرت مولانا رائے پوری بھی طلبہ کی صف میں بیٹھے ہوئے ہیں اور حضرت استاذ کی آمد کا انتظار فرمارہے ہیں کہ جہاں ان طلبہ کو اجازت ملے وہاں مجھے بھی یہ شرف نصیب ہو۔
(تذکرۃ الخلیل:۲۶۹)