نسبت کی قوت اور جذب وکشش اور افادئہ عام کے متعلق مولانا سید عبدالحی صاحب مصنف نزہۃ الخواطر نے تحریر کیا ہے:
’’کانت لہ قدم راسکۃ وباع طویل فی ارشاد الطالبین والدلالۃ علی معالم الرشد ومنازل السلوک والتبصر فی غوامض الطریق وغوائل النفوس صاحب نسبۃ قویۃ وافاضات قدسیۃ وجذبۃ الٰہیۃ نفع اﷲ بہ خلقا کثیرا وخرج علی یدہ جمعا من العلماء وخرج علی یدہ جمعا من العلماء والمشائخ ونبغت بتربیتہ جماعۃ من اہل التربیۃ والارشاد۔
(نزہۃ الخواطر:۱۳۶)
’’آپ کو طالبین کی ہدایت وارشاد، اور رشدہدایت اور منازل سلوک کی طرف راہنمائی میں رسوخ وکمال تھا اور طریقت کے اسرار اور نکتوں کے شر،وآفات کے بارے میں بڑی گہری بصیرت تھی ، آپ قوی نسبت کے حامل تھے،اضافات قدسی اور شوق الٰہی سے لبریز تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات سے بڑی مخلوق کو نفع پہنچایا اور آپ کے ہاتھ پر علماء ومشائخ کی ایک بڑی جماعت نے تربیت پائی اور آپ کے تزکیہ وتربیت سے بہت سے اہل سلوک کمال کے درجہ پر فائز ہوئے۔‘‘
اور اس سے بھی بڑھ کر مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی کی شہادت ہے جنہوں نے حضرت گنگوہی کے دربار میں بارہ سال گزارے اور پھر حضرت مولاناخلیل احمد صاحب کی خلوت وجلوت کو دیکھا وہ شہادت مولانا عاشق الٰہی صاحب کے الفاظ میں پڑھئے:
’’مولوی محمد یحییٰ صاحب بھی خود صاحب بصیرت تھے اور بارہ برس امام ربانی کے پیشکار بن کر گزار چکے تھے کہ سب ہی چھوٹے بڑے اس دربار میں آتے اور حاضری دیا کرتے تھے مگر شروع سے ان کے قلب میں حضرت کی ایک خاص عظمت تھی اور اس وقت بھی جبکہ گنگوہ کا دربار قائم ہونے کے سبب کسی کو وہم بھی نہ تھا کہ چند روز بعد ہر مجاز کا دربار جدا قائم ہوگا فرمایا کرتے تھے کہ مولانا خلیل احمد صاحب سے تعلق رکھنے والا کبھی محروم نہیں رہ سکتا اور مولانا کی ایک شان خاص ہے، جو بیان میں نہیں آسکتی، یہی سبب ہے کہ اپنے جس مخلص کو بھی امام ربانی کے بعد انہوں نے مشورہ دیا یہی دیا کہ حضرت کی طرف رجوع کرو اور جس دوست کی خیر خواہی پر مٹے اس کو مجبور کیا کہ حضرت سے بیعت ہو اور آستانۂ خلیلیہ سے نہ ہٹو کہ یہاں سے محروم جانے والا کامیاب نہیں ہوسکتا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۱۹۴)
بیعت کا مقصد اور تصوف کی حقیقت:
حضرت مولانا اکثر بیعت کے وقت بیعت کے مقصد کی وضاحت فرماتے اور اس کی اہمیت پر تقریر فرماتے تھے۔ مولوی محمود الوافی صاحب اپنے ناناشاہ سراج الیقین صاحب سے بیعت تھے بعد میںحضرت مولانا سے تجدید بیعت کی آپ نے ایک مختصر مضمون ارشاد فرمایا اوروہ یہ تھا:
’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ببرکت صحبت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ ان ہی طاعات وعبادات مشروعہ صوم وصلوۃ وجہاد وغیرہ کے حصول نسبت کاہوجانا ایک نظر اشرف وانور میں کل مقامات طے ہوجاتے تھے بعد اس کے جب اکابر امت مرحومہ نے دیکھا کہ اس قوت قدسیہ کے مستورہوجانے کے سبب اب یہ امور وصول الی اللہ کے لئے کافی نہیں ہوتے تو