میں بڑے اہم مشورے ہوئے جن کی اطلاع دوسروں کو نہ ہوسکی اسکے بعد دونوں بزرگوں (شیخ الہند اور حضرت مولانا )نے حج کا سفر کیا،گئے تو دونوں الگ الگ اس لئے کہ حکومت کی نگاہ میں دونوں مخدوش تھے خیال یہ ہوا کہ اگرایک گرفتار ہوجائے تو دوسرا حجاز پر پہنچ جائے ،حجاز پر پہنچ کر دونوں اکھٹے ہوگئے اور انور پاشا،غالب پاشا سے ملاقاتوں میں دونوں شریک رہے جس کا ذکر گزشتہ اورق میں آچکا ہے،اسی سفر میں حضرت شیخ الہند گرفتار ہوئے اور مالٹا بھیجے گئے اور حضرت مولانا واپس ہوئے اور بمبئی میں گرفتار ہوکر نینی تال بھیجے گئے۔
۱۳۳۸ھ میں شیخ الہند کو رہا کیا گیا ۲۶ِرمضان المبارک ۱۳۳۸ھ کو دیوبند پہنچے عید کے دوسرے دن حضرت مولانا ملاقات کی خاطر دیوبند تشریف لے گئے اور مدتوں تک علیحدہ رہنے والے دونوں اکابر جس گرمجوشی سے ملے وہ حضرت شیخ الحدیث مدظلہٗ کے الفاظ میں پڑھئے۔
’’ان دونوں اکابر کا بغل گیر ہونا بھی خوب یاد ہے اور حضرت شیخ الہند کا نہایت مسرت کے ساتھ یہ ارشاد کہ ’’مولوی حسین احمد مولانا کے لئے سبز چائے بناؤ‘‘بھی خوب یاد ہے حضرت شیخ الاسلام قدس سرہٗ نے نہایت مسرت کے لحجہ میں فرمایا حضرت ابھی لاتا ہوں۔‘‘(آپ بیتی ۴/۲۶)
حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی
حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اگر چہ عمر میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سے چھوٹے تھے لیکن چونکہ براہ راست حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی سے بیعت تھے اور انھیں کے مجاز تھے نیز حضرت گنگوہی سے انتہائی تعلق و محبت اور عقیدت و مودت کا معاملہ کرتے تھے۔اسی نسبت سے حضرت مولانا سے بھی قلبی تعلق رکھتے تھے۔۱۳۱۵ھ تک کانپور میں رہے پھر تھانہ بھون میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور اسی وقت سے حضرت مولانا سے تعلق پیدا ہوا اور وہ بڑھتا ہی رہا مدرسہ مظاہر علوم کے سالانہ جلسوں میں برابر شرکت تھے اور تین تین گھنٹہ مؤثر تقریر کرتے حضرت مولانا کی خدمت میں تشریف لاتے اور اس طرح پیش آتے جیسے ایک شاگرد اپنے شفیق استاذ کے ساتھ پیش آتا مدرسہ کے سرپرست بھی رہے اس وجہ سے حضرت مولانا سے قریب سے قریب تر رہے حضرت مولانا کی وفات کے بعد’’خوان خلیل ‘‘نام کی ایک کتاب تصنیف کی جس میں حضرت مولانا کے صفات وکمالات اپنے تعلق اور عقیدت و احترام ،تاثرات و کیفیات کا اظہار کیا ہے۔
حکیم الامت حضرت مولانا سے اپنے تعلقات کی ابتداء کا ذکر اس طرح کرتے ہیں ۔
’’یوں تو مولانا سے احقر کو مدت دراز سے نیاز حاصل تھا لیکن زیادہ خصوصیت اس زمانہ سے ہوئی جب سے میں کانپور کا تعلق چھوڑ کر وطن میں مقیم ہوا اور سہارنپور کی آمد و رفت میں کثرت ہوئی جس میں مظاہر علوم کے سالانہ جلسہ کے موقع پر تو گویا بالا التزام حاضری ہوتی تھی اور متفرق طور پر بکثرت آنا جانا رہتا تھا اور ہر حاضری میں طویل طویل اوقات مولانا کی صحبت میں مستفید رہتا اور عجیب بات یہ ہے کہ باوجود یہ کہ میں ہر طرح چھوٹا تھا عمر میں بھی طبقہ میں بھی اور علم و عمل میں بھی تو مجھ کو کوئی نسبت ہی نہ تھی اس میں تو