حضرت مدنی نے اپنی خود نوشت سوانح ’’نقش حیات‘‘میں متعدد جگہ حضرت مولانا کا ذکر کیا ہے اور ان کے علم و فضل کا دل کھول کر اعتراف کیا ہے،حضرت مولانا کو اپنا استاذ اور مقتد بنایا ہے اور جس عظمت کے ساتھ ان کو یاد کیا ہے وہ ایک دوسرے کا آپس میں خیال ،تعلق اور محبت و عظمت کا بین ثبوت ہے،شیخ الاسلام حضرت مدنی نے زندگی بھر حضرت شیخ الہند کے بعد حضرت مولانا کے حکم کو جس طرح مانا اور اپنی خواہش و ارادہ کو ان کے حکم پر قربان کیا ہمعصروں میں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی،مدرسہ مظاہر علوم میں ہر سال جلسہ میں حکیم الامت حضرت تھانوی تشریف لاتے اور وعظ فرماتے تھے ایک بار انھوں نے معذرت فرمائی اس وقت حضرت مدنی کلکتہ میں تھے حضرت مولانا نے ان کو شرکت کی دعوت دی وہ فوراً اپنا کام چھوڑ کر پہونچے۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب زید لطفہ تحریر فرماتے ہیں۔
’’جب اعلیٰ حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے بعض اعذار کی وجہ سے مدرسہ کے جلسہ میں تشریف آوری سے عذر فرمادیا تو میرے حضرت قدس سرہٗ نے حضرت مدنی کو تار دیا جو اس وقت کلکتہ تشریف فرماتھے جلسہ میں تمھاری شرکت ضروری ہے حضرت مدنی کو اﷲ تعالیٰ بہت ہی جزائے خیر عطا فرمائے کسی دوسری جگہ تشریف لے جانا تھا وہاں التوا کا تار دے کر فوراً سہارنپور تشریف لے آئے چونکہ خاص طور سے بلائے گئے تھے اس لئے مدرسہ کے مہمان خانہ میںتھے حضرت مدنی کے قیام کا اہتمام میرے حضرت قدس سرہٗ نے فرمایا تھا تانگہ سے اتر کر حضرت مدنی مدرسے میں تشریف لے گئے ،میرے حضرت مصافحہ اور دست بوسی فرمائی۔‘‘(آپ بیتی نمبر۴/۹۵)
امام اہل سنت مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی:
چونکہ حضرت مولانا کو رد شیعیت میں بڑا ملکہ حاصل تھا اور آپ نے شیعی کتب کا بڑا مطالعہ کیا تھا پھر اس موضوع پر دو اہم کتابیں تصنیف فرمائی تھیں ۔
(۱)المطرقۃ الکرامہ(۲)ھدایات الرشید،اس لئے قدرتی طور پر مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی سے بڑی اپنائیت اور تعلق پیدا ہوگیا تھا۔مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی کی زندگی کا مقصد اور طریقہ کار ہی ردشعیت تھا اور انھوں نے اس سلسلہ میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں خصوصاً لکھنؤ میں ان کی کوششوں کے جو نتائج برآمد ہوئے وہ لکھنؤ کے اہل سنت والجماعت کبھی فراموش نہیں کرسکتے اس لئے بجا طور پرا نکو ’’امام اہلسنت‘‘ کا لقب دیا گیا اور وہ اسی نام سے مشہور ہوئے ،مولانا عبدالشکور صاحب کو بھی حضرت مولانا سے اتنا زیادہ تعلق ہوگیا تھا کہ اکثر سہارنپور آتے اور حضرت مولانا کی خدمت میں کئی کئی روز رہتے ،مدرسہ کے جلسوں میں شرکت کرتے اور تقریر کرتے اور ۱۳۳۸ھ میں حضرت مولانا سے مسلسلات کی سند بھی حاصل کی جو آپ پڑھ چکے ہیں مولانا عبدالشکور صاحب کو اپنے شاگردی اور حضرت مولانا سے تلمذ پر فخربھی تھا جو سند فراغت دارالمبلغین کے طلباء کو دیا کرتے تھے اس میں یہ درج ہے کہ میں نے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سے حدیث پڑھی اسی لئے وہ حضرت مولانا کا اس درجہ احترام کرتے جیسے ایک سعید شاگرد اپنے محسن استاذ کی کرتا ہے اس طرح حضرت مولانا ان سے اتنی محبت کرتے جیسے ایک استاذ