(تذکرۃ الخلیل:۳۲۴)
اتباع سنت کے سلسلہ میں آپ سے بہت واقعات ثابت ہیں جن کی تفصیل کی گنجائش نہیں،سفر میں ،حضرمیں ،خلوت میں جلوت میں ،ہمیشہ آپ سنت کی پیروی کرتے اور ہر ہر عمل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و شگفتگی کا ظہور ہوتا ،مختصراً یہ کہ آپ کی زندگی سنت کے مطابق گزری،سلام کرنے میں آپ پہل کرتے کوئی اگر جواب نہ دیتا ،یا دیتا آہستہ ،اس کے اس طرز عمل سے آپ ناراضگی کا اظہار کرتے اور فرماتے کہ ’’سلام کا جواب دینا واجب ہے‘‘،گھر میں تشریف لے جاتے تو دروازہ پر کھڑے ہوکر فرماتے آؤں اور جب پردہ ہوجاتا تو السلام علیکم کہہ کر داخل ہوتے عورتوں میں مسنون سلام کا رواج کم تھا،آپ اسکی اصلاح فرماتے کہ سلام کا جواب کیوں نہیں دیا عورتیں جواب دیتیں کہ شرم آتی ہے آپ فرماتے دین میں کیسی شرم ۔یہ تو ضعیف ایمان ہے کہ اس کا نام شرم کس نے رکھا آپ کی کوشش سے سلام مسنون کا رواج عام ہوگیا اور عورتیں بھی مسنون سلام (السلام علیکم)کرنے لگیں۔
ایسا بہت کم ہوتا کہ کوئی دوسرا سلام کرنے میں سبقت لے جائے اکثر آپ ہی سلام کرتے، مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ آپ سلام کرتے ہوئے گھر میں تشریف لائے تو عورتوں نے بجائے وعلیکم السلام کے السلام علیکم کہا گویا پیر کو خود سلام کیا فرمایا کیوں ہمارا سلام قابل قبول نہیں تھا جو اس کا جواب نہ دیا عرض کیا حضرت چھوٹوں کو سلام میں ابتداء کرنا چاہئے۔ہم کوشش کرتے ہیں کہ حضرت کے آتے ہی خود سلام کریں گے مگر اس کا موقع ہی نہیں دیتے اور ہم اپنے عزم پر جلدی سے السلام علیکم کہتے ہیں۔فرمایا اس میں چھوٹا بڑا کیا تھا ،سنت تو یہ ہے کہ آنے والا سلام کرے اس لئے اس کا جواب دو وعلیکم السلام ۔‘‘
(تذکرۃ الخلیل:۳۴۲)
عشق رسول :
حضرت مولانا کو عشق رسول اور محبت نبوی کا وافر حصّہ ملا تھا اور اسکا اظہار قدم قدم پر ہوتا تھا ،یہی وہ عشق نبوی تھا جو بار بار آپ کو دیار محبوب لے جاتا تھا اور اس تمنا کے ساتھ لے جاتا تھا کہ مرنے کے بعد بھی جوار نبی نصیب ہو۔
تمنا ہے درختوں پر ترے روضہ کے جا بیٹھے
قفس جس وقت ٹوٹے طائر روحِ مقید کا
کبھی آپ کی آرزو و تمنا شیخ عبدالرحیم البرعی کے اشعار میں ڈھلی جاتی اور ہر بن مؤلب کشا ہوتا۔
ومن لی ان ازورک بعد بعدٍ صبا حایا محمد اومساء
واشم تربۃ نفحت عبیرا وانظر قبۃ ملئت ضیاء
یہی وہ جذبہ عشق و محبت تھا جس نے ایسے فتنہ و فساد کے دور میں مدینہ منورہ پہنچایا ۔جب مدینہ منورہ کے راستہ میں بدامنی پورے شباب پر تھی اور راستہ اتنا خطرناک اور اتنا وحشت ناک تھا کہ حاجی کا مدینہ منورہ پہنچنا مشکل سے مشکل ترتھا۔