مدینہ منورہ میں آخری رمضان گزارا اور شب و روز مجاہدے میں صرف کئے تراویح کے بعد ہندوستانی حساب سے سوا بجے شب کو اور عر بی اوقات کے حساب سے ۶بجے سوجاتے تھے اور حضرت شیخ الحدیث صاحب مدظلہ کو حکم تھا کہ ۸ بجے یعنی سوا تین بجے ہندوستانی حساب سے مجھے جگا دیا کریں حضرت شیخ فرماتے ہیں۔
’’تمام رمضان میں صرف ایک یا دو مرتبہ مجھے اس کی نوبت آئی کہ حضرت کی آنکھ اس سے قبل نہ کھلی ورنہ ہمیشہ جب آٹھ بجے پہونچا تو حضرت کو یا تو وضو کرتے دیکھا یا استنجا کرتے ہوئے چنانچہ حضرت دو پارے اس وقت نفلوں میں سنتے۔‘‘
(اکابرکارمضان:۱۶)
مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی اپنا تاثر اس طرح بیان کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔
’’چھ چھ مہینہ متواتر و مسلسل سفر میں ساتھ رہنے کا مجھے اتفاق ہوا مگر میں نے ایک دن بھی نہیں دیکھا کہ نماز باجماعت ترک یا وقت مستحب سے ہٹی ہو یا ایک شب بھی تہجد کے لئے وقت معمول پر اٹھنے میں چند منٹ کی تاخیر ہوئی ہو۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۳۵۹)
جلالت علمی ـ:
حضرت مولانا کی جلالت علمی کے متعلق کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانا ہے مجھ جیسے بے بضاعت اور بے مایہ طالب علم کے لئے کسی طرح یہ زیب نہیں دیتا کہ اس بارے میں کوئی محاکمہ کروں یا کوئی بات لکھوں لیکن بزرگوں اور اہل علم کے فرمودات کو نقل کردینا کوئی مناسب بات نہ ہوگی ناظرین اسی باب کے شروع میں پڑھ چکے ہیں کہ حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نے آپ کا تذکرہ ان الفاظ سے شروع کیا۔
ھو الثقۃ الشتُ الحجۃ الحافظ الصدوق
محی السۃ قاطع البدعۃ الشنیعۃِ
ان الفاظ کے بعد تحریر فرماتے ہیں۔
تبعث من افاداتہٖ عیون العلم والنُھٰی
و تعجرت من افاضاتہٖ انھار الاحسان والتقیٰ۔
اور پھر آپ کے صفات بیان کرتے کرتے تحریر فرماتے ہیں۔
ابو حنفیۃ زمانہِ وشبلیُ عصرہِ ودورانہٖ
مولانا سید عبدالحی نزہتہ الخواطر میں آپ کا ذکر ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں۔
کان الشیخ خلیل احمد لہ الملکۃ القویۃ والمشاھدۃ الجیدۃ فی الفقہِ والحدیث والید الطولیٰ فی الجدل والخلاف والرسوم التام فی علوم الدین والمعرفۃ والیقین
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی آپ کو جبر الہام وبحر قمقام اور دوسری جگہ ’’جامع الفضائل العلمیۃ‘‘کے القاب سے یاد