ہونے کے سبب عمل میں پختہ ہونے کا زیادہ ضرورت مند ہے اس لئے جتنی کوشش علم کی ترقی اور پڑھے ہوئے کے محفوظ رکھنے میں کی جائے اس سے زیادہ عمل کی رغبت اور پابندی شریعت کو ہر قدم پر ضروری سمجھنے میں کی جائے ،کہ مقتدابن کر آزاد طبع کا یکدم مفید بننا بہت دشوار ہے اور ایسوں کو خوار و خراب ہی ہوتے دیکھا ہے جو طالب علمی کے اس زمانہ کی قدر نہیں کرتے جس میں خاص رحمت آلیہہ کا ان پر نزول ہوتا اور فرشتے ان کے قدموں میں اپنے بازوؤں کا فرش بچھاتے ہیں۔‘‘
بغیر ہمت کے کوئی کام نہیں ہوتا:
ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت تہجد کو آنکھ نہیں کھلتی ۔فرمایا’’ بھائی ہمت کرو کوئی کام دنیاکا ہو یا دین کا بغیر ہمت کے نہیں چلتا اور دیکھو کہ کسی معصیت کی سزا تو نہیں ممکن ہے کھانے پینے میں بے احتیاطی ہوئی ہویا قولی و فعلی کوئی گناہ صادر ہوا ہو اگر ایسا ہے تو ضرورت ہے توبہ و استغفار کے اضافہ کی کہ ذکر پر ذکر بڑھایا جائے نہ یہ کہ ذکر ہی چھوڑ دیا جائے۔‘‘
تحقیق اور جستجو:
بذل المجہود کی تالیف کے دوران ایک بار حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ سے فرمایا ’’کل فلاں بات لکھی گئی تھی اس کو دوبارہ نکالو جب اس کو نکالا گیا تو آپ نے اس کو قلم زد کیا اور دوسری عبارت تحریر فرمائی اس کے بعد بڑی مسرت کے ساتھ ایک خواب بیان کیا کہ تہجد کے بعد ذرادیر کو آنکھ لگ گئی تو ایک صاحب کو یوں کہتے سنا کہ یہ جگہ غلط لکھی گئی ہے اس کو درست کر لو۔‘‘
خدمتِ حدیث پر تشکر و امتنان:
بذل المجہود کی تکمیل پر خدا کے شکر کے ساتھ فرمایا’’اس قابل تو ہوں نہیں مگر ہوس تھی اور ہے کہ خدام حدیث کی جماعت میں شامل ہوجاؤں اﷲ کا انعام ہے کہ اس نے کام لے لیا۔
کہاںمیں اور کہاں یہ نگہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
فتویٰ دیتے وقت شرح صدر:
جب تک کسی فتویٰ پر شرح صدر نہ ہوتا اسکی تائید نہ کرتے بعض دفعہ حضرت گنگوہی کے فتویٰ پر بھی عدم شرح صدرکی بنا پر دستخط نہیں فرمائے چنانچہ ایک بار فرمایا۔
مامور باالحج کے لئے تمتع جائز نہیں اپنے حضرت گنگوہی رحمتہ اﷲ علیہ کے اس فتویٰ میں مجھے شرح صدر نہیں ہوا بلکہ میں اذن آمر کے بعد اس کو جائز سمجھتا ہوں مگر حضرت کے خلاف فتویٰ دینے کی جرأت نہیں ہوتی۔‘‘
حضرت گنگوہی کی خدمت میں حاضری کی برکتـ: