ہوتا غرضیکہ خاطرداری ،حسن سلوک اور جودو سخا وت میں آپ کو ملکہ حاصل تھا۔
صبرو استقامت:
حضرت مولانا کی زندگی میں مختلف زمانوں میںایسے سخت اور دلخراش حادثے گزرے ہیں جن پر صبر کرنا ایک صاحب استقامت اور خدا سے خاص تعلق رکھنے والے بندے ہی کا کام ہے آپ نے ان مسلسل اور دلخراش حادثوںپر جس صبرو استقامت کا ثبوت دیا اور قضائے الٰہی پر جس طرح راضی رہے وہ آپ کے تعلق باﷲ اور فنا فی اﷲ کا ثبوت ہے ،آپ گذشتہ اوراق میں پڑھ چکے ہیں کہ ۱۲۹۵ھ سے لیکر ۱۳۰۵ھ تک آپ پر سات آٹھ حادثے ذاتی اور خاندانی گزرے پہلی بیوی کا انتقال ،ماموں کا انتقال ،استاذوں کا انتقال والد اور والدہ کا انتقال ان میں سے ہر حادثہ آپ کے لئے سخت ترین تھا ،آپ نے ان سارے حادثوں پر صبرو سکون کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔۱۳۲۳ھ میں آپ کے مرشد اور محبوب شیخ جن کا احترام اور جن کی اطاعت اور فرمانبرداری آپ کا وظیفہ زندگی تھا یعنی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اﷲ مرقدہ نے وصال فرمایا اس حادثہ نے آپ کے ذہن و دماغ کی دنیا بدل دی آپ کے دیدہ ودل پر وہ اثر پڑا جو اس سے پہلے کے حادثوں میں کسی حادثہ کا نہیں پڑا تھا ،آپ کے تاثر کا حال بھی ناظرین کی نظر سے گزر چکا ہے اس حادثے کے بعد ۱۳۲۸ھ سے لے کر ۱۳۳۰ھ تک آپ پر چند حادثے بڑے سخت گزرے ان میں سے ہر ایک حادثہ ایسا تھا جس سے آپ کا طبعی سکون و اطمینان اڑجانا چاہئے تھا اور زندگی بے ثباتی اور دنیا کی بے وقعتی ایسی بیٹھ جانی چاہئے تھی کہ کسی چیز میں مزہ نہ آئے کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
’’خال دنیا رابہ یرسیدم من از فرزانہ
گفت یا خو ایے است یابادے است یا اقعانہ
بازگفتم حال آنکس گو کہ دل وروے بہ بست
گفت یا غولے یاد یوے است یاد یونہ
لیکن باوجود اسکے آپ کو تعلق باﷲ اور انقطاع عن الدنیا کا وہ درجہ حاصل تھا جس کی وجہ سے ان حادثات پر آپ کے صبرو شکر میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوا،ان سارے حوادث پر آپ صابرو شاکر رہے اور تسلیم و رضا کے پیکر بنے رہے۔ ۱۳۲۸ھ مطابق ۱۳۲۹ء میں آپ کی دو صاحبزادیاں جو شادی شدہ تھیں انتقال کرگئیں اور ۱۳۳۰ھ میں آپ کے جواں سال صاحبزادے حافظ محمد ابراہیم چالیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ،ان پیہم حادثوں کی وجہ سے جو تین سال میں جوان اولاد کے متواتر تین صدموں کی شکل میں پیش آئے آپ نے تسلیم و رضا کو پوری طرح اختیار فرمایا ۔صاحبزادے کی بیماری اور آپ کی تیمارداری اور تیمارداری میں مشقت اور اس پر صبر و استقامت اور انابت الی اﷲ کا حال مولانا عاشق الٰہی صاحب اس طرح تحریر کرتے ہیں:
’’آپ کا اکلوتا جوان لڑکا حافظ ابراہیم مرحوم جب مرض الموت میں مبتلا ہوکر سہارنپور آیا تو اس کو کوئی اندرونی تکلیف ایسی تھی جس کے سبب وہ لیٹ نہیں سکتا تھا سات راتیں متواتر حضرت پر ایسی گزریں کہ دن بھر مدرسہ کے مشاغل سے فارغ ہوکر گھر میں جاتے تو