کیجائے میرے نذدیک ان دونوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
حضرت گنگوہی کی صاحبزادی کے متعلق خیال:
حضرت گنگوہی کی صاحبزادی بی صفیہ بڑی صاحب نسبت خاتون تھیں مولانا عاشق الٰہی صاحب نے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے ہمرا ہ جاکر صاحبزادی صاحبہ سے ان کے حالات پوچھے تو انھوں نے سوائے اپنی بیعت کے واردات و حالات کا کچھ ذکر نہیں کیا تو حضرت مولانا خود بولے۔
’’آپ نہیں فرماتیں تو لیجئے میں کہہ دیتا ہوں لطائف ستہ جاری ہیں۔‘‘
اہل اﷲ کی توجہ ـ
ایک بار مناظرہ کے سلسلہ میں فرمایا۔
’’ابتداء میں تقریری مناظرہ سے میری طبیعت ڈرتی اور خصم (مد مقابل )کے سامنے بیٹھ کر مرعوب ہوجایا کرتی تھی میں نے اپنے حضرت مولانا گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ ایک صحابی کا قصّہ حدیث میں آتا ہے کہ وہ گھوڑے پر سوار نہ ہوسکتے تھے جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دے کر ان کو گھوڑے پر بٹھایا تو اس کے بعد وہ اعلیٰ درجہ کے شہسوار ہوگئے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل اﷲ کے تصرفات امور طبیعیہ پر بھی اثر کرتے ہیں لہذا حضرت میرے لئے دعا فرمادیں کہ میرا ضعفِ قلب جاتا رہے اور میں مناظرہ کے وقت خصم سے مرعوب نہ ہوں اس کے بعد وہ ضعف قلب ایسا رفع ہوا کہ کیسا ہی بڑے سے بڑا مولوی ۔۔۔۔اہل باطل کا سامنے آیا مگر مجھے اتنا بھی معلوم نہ ہوا جتنا ایک سمجھدار شاگرد سامنے بیٹھا ہوا معلوم ہوتا ہے اور مناظرہ کے لئے دل بہت ہی کھل گیا۔‘‘
کٹھ حجتی سے علم میں بے برکتی آتی ہے:
آپ کے درس میں اگر کوئی طالب علم کٹ حجتی کرتا اور اینڈے اینڈے سوالات کرتا تو آپ فرماتے۔
’’اصل مطلب سمجھنے کی کوشش کرو اور زوائد کے پیچھے نہ پڑو کہ اس سے علم میں بیبرکتی ہوتی ہے۔‘‘
علم سے مقصود عمل ہے:
اگر کسی طالب علم کو آزاد دیکھتے تو فرماتے۔
’’ابھی سے آزاد بنو گے تو پڑھ لکھ کر خود بھی ڈوبو گے اور دوسروں کو بھی ڈبوؤ گے علم سے مقصود ہے عمل ،پس علم کے ساتھ ساتھ عمل کی پوری عادت ڈالو کہ پھر اس عادت میں لذت و حلاوت پیدا ہو یہ خیال کہ عالم بنکر عمل کرلیں گے محض شیطانی خیال ہے،شریعت نے تو دس برس کے بچے کو مار کر نماز پڑھوانے کا حکم دیا ہے حالانکہ ابھی اس پر نماز فرض نہیںہوئی ،کیونکہ جب تک پہلے سے عادت نہ ہو بالغ ہوتے ہی نماز کا پابند بن جانا دشوار ہے اور طالب علم تو بہر حال عمل کا مکلف بلکہ مقتدا بننے کا وقت قریب