ساختہ زبان پر آتا ہے۔
در کفے جام شریعت درکفے سندان عشق
ہر ہو سنا کے نداند جام و سندان باختن
رات کے معمولات:
مغر ب کی نماز ادا فرما کر چھ رکعتیں اوابین کی پڑھتے ان نوافل میں ایک یا سوا پارہ پڑھا کرتے تھے۔ اوابین کے بعد رات کا کھانا تناول فرمانے کے لئے اپنے مکان تشریف لے جاتے، کھانے کے بعد وہ مستورات آتیں جو آپ سے بیعت کا تعلق رکھتیں وہ آپ کے سامنے اپنے مختلف مسائل رکھتیں اور آپ ان مسائل کو حل فرماتے ان کے سوالات کے جوابات دیتے اتنے میں عشاء کی اذان ہوجاتی، آپ اذان سن کر مدرسہ تشریف لاتے اور کچھ دیر توقف فرماکر مسجد میں دہ یا چار رکھتیں نفل ادا فرماتے پھر جماعت کے ساتھ نماز عشاء ادا فرماتے عموماً عشاء کی جماعت دیر میں ہوتی تھی، آپ اس کا اہتمام فرماتے کہ امام ایسا عالم ہو جو تجوید سے پوری طرح واقف ہو آ پ کا یہ بھی معمول تھا کہ اگر امام نے کوئی خلاف تجوید آیت پڑھ دی تو بے تکلف سلام کے بعد امام کو متنبہ فرماتے اور قواعد تجوید بتایاکرتے تھے، امام عام طور پر آپ کے خدام یا شاگردوں میں کوئی ہوتا عموماً مولانا حافظ عبداللطیف صاحب یا مولان ظفر احمد صاحب تھانوی امامت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے اس لئے آپ نماز کے بعد بلارعایت ٹوکا کرتے تھے اور یہ حضرات آپ کی تنبیہ کو اپنے لئے باعث سعادت اور ذریعہ ترقی جانتے تھے۔
عشاء کے بعد آپ کا یہ بھی معمول تھا اور اس کے آپ سختی سے پابند تھے کہ باہر سے آنے والے مہمانوں کی فکر فرماتے اور اگر کوئی خاص مہمان ہوتا تو ذرا دیر ٹھیرتے اور اس سے حال دریافت کرتے ورنہ منتظمین کو ہدایات دے کر مکان تشریف لے جاتے اور چند گھنٹوں کے لئے بستر پر آرام فرماتے اور رات کے آخر حصہ میں خودبخود اٹھ جاتے تھے کسی کو جگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی آپ سحر خیزی اور شب بیداری کے اتنے عادی تھے اور نیند آپ کے اتنے قابو کی تھی کہ اٹھنے میں بھی تخلف یا تکلف نہیں ہوا جس کا تفصیلی حال اور کیفیت اس باب کے شروع میں نظر سے گزرچکی ہے، قرآن کریم کی آیت{ تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا} جن نیک اور خدا رسید ہ لوگوں کے حق میں اتری ہے یقینا آپ انھیں باخدا بندوں میں امتیازی شان رکھتے تھے، سفر ہو حضرہو صحت ہو یا بیماری ہو ہر حال میں آپ کی سحر خیزی وشب بیداری کا معمول جاری رہتا تھا۔ نیم شب کے بعد سے تا نماز فجر کامعمول مولانا عاشق الٰہی صاحب یو ں تحریر کرتے ہیں:
’’حضرت کا معمول آخر شب میں دس یا بارہ نفلیں اور ان میں تقریباً دو پارے تلاوت فرمانے کا تھا، اس کے بعد آپ چارپائی پر داہنی کروٹ لیٹ جاتے اور کوئی پاس ہوتا تو اس سے باتیں کرنے لگتے تھے آخر میں چائے پینے کو معمول بھی اس وقت ہوگیا تھا فجر ہوتے ہی دو سنتیں پڑھ کر مدرسہ میں تشریف لاتے اور حجرہ کے قریب دیوار سے لگ کر خاموش بیٹھ جاتے ، مہمان اور خدام بھی حاضر ہوجاتے اور سکوت کے ساتھ بیٹھ جاتے یہ مجلس عجیب پُر انوار ہوتی تھی کہ قلب مبارک سے بقعہ ہائے نور نکل کر اہل مجلس کو ڈھاپنتے اور سکینہ