کے باوجود کہ سلطان سخت حنبلی المسلک اورمحمد بن عبدالوہاب کے متبعین میں تھے اور حضرت مولانا حنفی المسلک اور حاملین تصوف میں تھے آپ نے ان کا خیر مقدم کیا اور ان کاساتھ دیا اور بدامنی اور غیر دینی شعار کے ختم ہونے کے سبب ان کی انتہا پسندی کو اور بے اعتدالی کو برداشت کیا لیکن موقع موقع پر ان سے مل کر بعض بے اعتدالیوں اور دوسرے مسلک والوںکی حق تلفیوں کوختم کرایا سلطان ابن سعود کے برسر اقتدار آنے پر جب ان کے نجدی سپاہیوں نے قبے گرائے اور غیراللہ کے سجدے بند کرائے اور شرک وبدعت کی بیخ کنی کی تو ہندوستان کے ان حلقوں میں جو شرک وبدعت کا جھنڈا بلند کیے ہوئے تھے ایک تہلکہ مچ گیا اور حکومت نجدیہ کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ وہابی حکومت ہے اس نے مزارات کی بے حرمتی کی ہے غیرحنبلی المسلک لوگوںکا قتل عام کیا ہے حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ لوگ مانتے نہیں اور یہ مسلمان نہیں ہیں ان کے ان الزامات کی وجہ سے بہت سے وہ حلقے، اشخاص اور بعض جماعتیں جو سادہ مزاج تھں تحقیق وتفتیش کی ضرورت نہیں سمجھتی تھیں، غلط فہمی کاشکار ہوگئیں اور ہندوستان میں بعض علماء مخالفین کے ہم نوا ہوگئے ۔حرمین شریفین کو ان نجدی لوگوں سے بچانے کا بیڑا اٹھایا گیا اور اس کو ایک ہمہ گیر تحریک کی شکل دیدی گئی ایک ایسا ماحول بنادیا گیا کہ ہر شخص دم بخود تھا حضرت مولانا کے منتسبین اور عقیدت مندمتفکرہوگئے تھے کہ حضرت مولانا جو حجاز میں ہیں وہ کس حال میں ہیںحضرت مولانا کو اہل تعلق کی فکرمندی اور حکومت نجدیہ کے متعلق عوام میں پھیلی ہوئی غلط فہمی اور شورش وہنگامی کی خبر ہوئی تو آپ نے صحیح صورتحال کی اطلاع دی اور مولانا ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر زمیندار لاہور کو اس سلسلے کے دو مکتوب بھیجے اور ان کو تحریر فرمایا:
’’چند ماہ سے سلطان نجد وملک الحجاز ایداللہ بنصرہ مدینہ منورہ زادہا اﷲ شرفا وتکریما حاضرہوئے ہیں اور نجدی امام نے جمعہ کی نماز کے لیے خطبات پڑھے ہیں میں چاہتاہوں کہ ان کو جناب کی خدمت میں بھیجوں تاکہ جن لوگوں کو ان کی طرف سے سوء عقیدت پیدا ہوئی ہے اور عناد سے خالی الذہن ہیں عجب نہیںکہ ان خطبات کا پڑھنا ان کے لیے نافع ہو۔‘‘ (اکابرکے خطوط)
ایک دوسرے مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
جلالۃ الملک آج کل یہان تشریف لائے ہوئے ہیں اور زیادہ توجہ اصلاح خیالات اور تصحیح عقائد کی طرف مبذول ہے اس کے لیے علماء مدینہ کو منتخب کرکے مقرر فرمایا ہے کہ لوگوںکی اصلاح کریں اور اصلاح میں اگر مساعدت کی ضرورت ہو تو حکومت ہر طرح سے مساعدت کے لیے تیار ہے فی الواقع یہاں کے عوام کی حالت اس قدر خراب ہے کہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے لوگوں کو سجدہ کرتے اور طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے جلالۃ الملک نے اپنے بیان میں یہ بھی فرمایا ہے کہ میں تم کو محبوب سمجھتاہوں اور تمہارے لیے بمنزلہ باپ کے خیر خواہ ہوں میں چاہتاہوں کہ تم کو اتباع شریعت علی وجہ الکمال حاصل ہوجائے چنانچہ اس کاانتظام شروع ہوگیا ہے اور انشاء اللہ اس میں کامیابی ہوگی۔‘‘
(اکابر کے خطوط)
حجاز میں امن کی توثیق: