غرض کہ سفر میں حضرت سہارنپوری مولانا میرٹھی کا بہت خیال رکھتے تھے اور انتہائی شفقت و محبت کا معاملہ کرتے تھے اس وجہ سے مولانا گنگوہ ، سہارنپور،رائیپور،دیوبند ہر جگہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
مولانا کا یکم شعبان ۱۳۶۰ھ مطابق ۲۵ِاگست ۱۹۴۱ء بروز دو شنبہ صبح چھ بجے انتقال ہوا،مولانا کی شدید علالت کی بناء پر حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی دیوبند ہوتے ہوئے میرٹھ پہنچے تو انتقال ہوچکا تھا اور مولانا کی وصیت کے مطابق حضرت شیخ کے انتظار میں جنازہ رکھا تھا حضرت شیخ نے نماز پڑھائی اور بعد میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا نے اپنی یادگار میں تین فرزند چھوڑے مولانا محمود الٰہی ،مولانا مسعود الٰہی ،حافظ مقبول الٰہی ۔
مولانا عاشق الٰہی صاحب کی کئی تصنیفات ہیں ان میں (۱)تذکرۃ الرشیدحضرت گنگوہی کے حالات پر جو دو جلدوں میں ہے(۲)تذکرۃ الخلیل حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری کے حالات پر مشتمل ہے اور یہی کتاب راقم سطور کی اس کتاب ’’حیات خلیل‘‘کا سب سے بڑا ماخذ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مولانا میرٹھی کا بڑا احسان ہے کہ انھوں نے حضرت سہارنپوری کے حالات سے دنیا کو روشناس کرایا اور اس نئی تربیت کے لئے بیش بہا معلومات فراہم کیں فجزاہ اﷲ احسن الجزاء(۳)ارشاد و الملوک ترجمہ امداد السلوک (۴)ترجمہ قرآن مجید۔(۵)الاسلام (۶)سفر نامہ مصروشام(۷)مکاتیب رشیدیہ ۔
۵۔مولانا فیض الحسن صاحب گنگوہی:
قصبہ گنگوہ سہارنپور میں مولانا حکیم فخر الحسن نام کے ایک بڑے فاضل شخص گزرے ہیں جو مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے ارشد تلامذہ میں تھے نیز حضرت گنگوہی کے حدیث میں شاگرد تھے ،مناظرہ میں یدطولیٰ رکھتے تھے خصوصاً آریوں سے کامیاب مناظرہ کرتے تھے وہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں سنن ابوداؤد کی شرح التعلیق المحمود اور تلخیص المفتاح کا حاشیہ اور سنن ابن ماجہ کا حاشیہ مشہور ہیں وہ حاذق طبیعت بھی تھے اور آخر عمر میں کانپور میں طبابت کی اور وہیں ۱۳۱۵ھ میں انتقال کیا انھیں کے فرزند مولانا حافظ فیض الحسن صاحب جو حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری کی اہلیہ محترمہ کے حقیقی برادرزادے تھے ابتدائی تعلیم کے بعد کانپور میں اپنے والد کے زیر سایہ عربی تعلیم حاصل کی اور تکمیل علوم کے بعد تجارت کتب اور مطبع کا کام کانپور ہی میں شروع کیا والد ماجد کی تربیت و تعلیم کی بناء پر مولانا فیض الحسن صاحب بھی مختلف علوم و فنون میں دستگاہ رکھتے تھے اور اخلاق حسنہ سے کمال درجہ میں متصف تھے ،خوش اخلاق ،خوش گفتار ،بلند کردار صاحب علم و عمل ،حافظ قرآن اور خوش اوقات تھے یہی وجہ تھی کہ جب ایک عرصہ کے بعد سہارنپور گئے تو اس زمانہ میں حضرت مولانا بذل المجہود کی تالیف فرمارہے تھے مولانا فیض الحسن صاحب کے پہونچنے سے حضرت مولانا بہت خوش ہوئے اور نہایت محبت سے ملے اور باوجودیکہ بھتیجے تھے اور ہر طرح چھوٹے تھے مگر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب سے فرمایا کہ ان کو بذل المجھود کے اجزاء دیدینا یہ دیکھیں گے مولانا فیض الحسن صاحب کہتے تھے کہ ۔
’’اس وقت تک میں حضرت سے بیعت بھی نہیں ہوا تھایہ سن کرمیں پانی پانی ہوگیااور ایک حروف بھی زبان سے نہیں نکلا حضرت تو یہ