جاکر خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا حضرت گنگوہی کے بعد مولانا محمد یحیٰ صاحب حضرت مولانا خلیل احمد صاحب ہی کے ہو کر رہ گئے وہ حضرت گنگوہی کی زندگی میں ہی حضرت مولانا کے علومرتبت کے قائل تھے وہ اکثر کہا کرتے تھے۔
’’مولانا خلیل احمد صاحب سے تعلق رکھنے والا کبھی محروم نہیں رہ سکتا مولانا کی ایک شان خاص ہے جو بیان میں نہیں آسکتی پھر حضرت گنگوہی کے بعد جس کو بھی مشورہ دیا یہی دیا کہ حضرت کی طرف رجوع کرو۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۱۹۷)
مولانا کے علمی کمالات ،علو استعداد ،کمال ظاہری و باطنی کا حال مولانا عاشق الٰہی صاحب ان الفاظ میں لکھتے ہیں۔
’’آہ مولوی محمد یحیٰ میرے محسن اور مخلص دوست تھے جن کے کمالات مخفیہ اور حالات سنیہ بیان کرنے کو مستقل تالیف کی ضرورت ہے آخر کوئی چیز تھے امام ربانی کو اولاد سے زیادہ پیارے ہوئے کہ حضرت ان کو بڑھاپے کی لاٹھی اور نابینا کی آنکھیں فرمایاکرتے تھے اور کسی ضرورت سے وہ چند منٹ کے لئے ادھر سے ادھر ہوجاتے تو امام ربانی بے چین اور بے کل ہوجایا کرتے تھے بارہ برس کامل اس لاڈ اور پیار میں گزرے کہ کوئی اس کی نظیر بیان نہیں کرسکتا حتیٰ کہ امام ربانی کاوصال ہوگیا،اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے جن کی دور بین بصیرت بارہ برس پہلے سمجھ چکی تھی کی مولوی یحیٰ کوئی چیز ہیں گنگوہ جاکر وہ عمامہ جو آپ کو مرشد العرب والعجم کے دست مبارک سے عطا ہوا اور اصل پینچیوں پر سیا ہوا اب تک محفوظ رکھا ہوا تھا یہ کہتے ہوئے اپنے دست مبارک سے مولوی محمد یحیٰ کے سر پر رکھ دیا کہ اس کے مستحق تم ہو اور میں آج تک اس کا محافظ و امین تھا الحمدﷲ آج حق کو حقدار کے حوالہ کرکے بارامانت سے سبکدوش ہوتا ہوں اور تم کو اجازت دیتاہوں کہ کوئی طالب آئے تو اس کو سلاسل اربعہ میں بیعت کرنا اور اﷲ کا نام بتانا۔(تذکرۃ الخلیل:۱۹۴)
مولانا محمد یحیٰ صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے گوناگوں صلاحیتیں بخشی تھیں ظاہری علم و فضل کے ساتھ ساتھ کمال باطنی کی دولت بھی عطا ہوئی تھی۔
خدمت خلق کا جذبہ بھی پایا تھا ،سادگی اور استغنا کی نعمت سے بھی سرفراز ہوئے تھے ذہانت و ذکاوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی تربیت کرنے کا وہ ملکہ حاصل تھا جس کی کوئی نظیر نہیں گنگوہ میں جب حدیث شریف پڑھتے تھے تو اہتمام کے ساتھ حضرت گنگوہی کی تقریر ضبط کرلیتے تھے جوایک مستقل تعلیق بن گئی تھی۔
۱۳۲۸ھ میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے مظاہر العلوم میں بلا کر حدیث کا درس ان کے سپرد کیا مولانا ساڑھے پانچ سال مظاہر علوم میں درس دیتے رہے اور اسی حال میں ۱۰ِذی قعدہ ۱۳۳۴ھ کو بوقت صبح انتقال فرمایا اور اپنی یادگار میں ایک عظیم القدر فرزند چھوڑا جن کا نام نامی حضرت مولانا محمد ذکریا صاحب کاندھلوی شیخ الحدیث ہے متعنا اﷲ بحیاتہ وزدید مجدہ
۳۔مولانا عبداﷲ گنگوہی :
مولانا محمد یحیٰ صاحب کاندھلوی ۱۳۱۱ھ میں جب گنگوہ حدیث پڑھنے گئے تو قصبہ میں لال مسجد میں قیام کیا اثنائے قیام وہ پانچوں وقت دیکھتے کہ ایک دس بارہ سال کی عمر کا لڑکا پابندی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اس بچے کی یہ ادا مولانا کی بہت بھائی نام پوچھا تو لڑکے