جب آپ نے سلطان ابن سعود کی کوششوں سے حجاز میں امن قائم ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو سلطان کی طرف سے آپ کے میں محبت پیدا ہوگئی اور اس پر امتنان وتشکرکااظہار کیا کہ دیار مدینہ امن وسکون کا دوبارہ گہوارہ اور کتاب وسنت کے مطابق مرکز اسلام بناآپ نے امن وسکون راحت وآرام کا نقشہ اس طرح کھینچا:
’’امن کی حالت بحمداللہ بدستور قابل اطمینان ہے ہر روز دو دو چار اونٹ مکہ مکرمہ سے آتے جاتے ہیں اورجدہ سے بھی لوگ آجارہے ہیں اور کسی قسم کا واقعہ اشتباہ کے درجہ میں بھی پیدا نہیں ہوتا میرے خیال میں حجاز میںجس قدر امن ہے دنیا بھر کی بڑی بڑی سلطنتیں ہوں یا ایشیائی اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتیں حالانکہ راستوں میں نہ فوج وسپاہ ہے نہ پولیس کی چوکیاں ہیں نہ کسی قسم کاظاہری سامان حفاظت ہے تاہم وہ بدو جن کی گھٹی میں ڈاکہ پڑی ہوئی تھی آج وہ گویا ایسے مقدس بزرگ ہیں کہ دوسروں کے مال کو خمروخنیز سے زیادہ مکروہ سمجھتے ہیں۔‘‘(ایضا)
اہل نجد کے ایمان وعقیدہ کی ضمانت:
عوام اہل نجد کے ایمان وعقیدہ اور علماء نجد کے علم وفضل کی شہادت ان الفاظ میں دیتے ہیں:
’’قاضی القضاۃ شیخ عبداللہ ابن بلہید جن کا مکان میرے مکان سے قریب ہی ہے ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے اور دینی مسائل میں گفتگو بھی ہوتی ہے بڑے عالم ہیں مذہب اہلسنت والجماعت رکھتے ہیں ظاہرحدیث پر جیساکہ امام ابن حنبل کا طریقہ ہے عمل کرتے ہیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ الاسلام ابن قیم کی کتابوں کو زیادہ محبوب اور پیش نظر رکھتے ہیں ہمارے علماء کے نزدیک بھی یہ دونوں بزرگ بڑے مرتبہ کے عالم ہیں بدعات اور محدثات سے نہایت متنفر ہیں توحید ورسالت کو اپنے ایمان کی جڑ قرار دے رکھا ہے الغرض میں نے جہاں تک خیال کیا اہل سنت کے عقائد سے ذرا بھی انحراف نہیں اور اکثر اہل نجد قرآن شریف پڑھے ہوئے ہیں سخت سردی کازمانہ ہے مگر اہل نجد صبح کی نمازمیں پابندی کے ساتھ آتے ہیں بلکہ اس وقت ہم جیسے آرام طلب لوگ حاضر ہونے سے ہچکچاتے ہیں بہرحال اس قوم کی حالت دینی نہایت اطمینان بخش دیکھی ہے۔‘‘(اکابرکے خطوط)
اصلاح کیسے کی جائے؟
حضرت مولانا کے نزدیک اصلاح کا طریقہ محبت وشفقت اورحکمت وموعظت کے ذریعہ زیادہ مفید اور کارآمد ہے بعض لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ ہر منکر پر سختی اور زجرو توبیخ سے کام لیتے ہیں یہ طریقہ آپ کو پسند نہ تھا آپ جب کوئی منکر دیکھتے تو منکر کرنے والا اگر آپ سے متعلق ہوتا اور گرفت سے اس کے ناراض ہونے کا ڈرنہ ہوتا تو آپ سختی سے کام لیتے لیکن عوام کے ساتھ آپ کا معاملہ دوسرا تھا افہام وتفہیم سے اس کو راہ راست پر لاتے اور اس میں آپ اکثر کامیاب ہوتے مولانا عاشق الٰہی صاحب آپ کے اس طرزعمل کو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
’’ فرمایا کرتے تھے کہ شرعی گنجائش پر عمل کرکے ملاجلارہنا صلہ رحمی کو بھی قائم رکھتا ہے اور اکثر اصلاح کا بھی سبب بن جاتاہے ورنہ اس زمانہ میں آزادی ایسی آگئی کہ ہم علیحدہ ہوکر بیٹھیں تو دوسروںکو پرواہ بھی نہ ہوگی وہ کہیں گے تم روٹھے ہم چھوٹے اور اس طرح