میرے سارے جسم کو محیط ہے اور پھر احاطے کو اس قدر وسیع کیاجائے گویا تمام عالم کو محیط ہے اور تم اس میں فانی ولاشی ہو اور لاالہ میں یہ تصور کیاجائے کہ قلب سے تمام ظلمات علائق ما سوااللہ کو پس پشت پھینک رہاہوں اور الااللہ میں یہ تصور کیاجائے کہ قلب انوار محبت وعظمت حق سے پر ہوگیا۔(تذکرۃ الخلیل:۴۱۳)
تعلیم وتربیت کے مختلف طریقے:
حضرت مولانا ذکر وشغل بتاتے ہوئے مرید وسالک کی طبیعت ، مزاج، مشغلہ اور وقت کی رعایت کرتے تھے آپ نے کبھی بھی کسی پر قوت وطاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا نہ ایسا ذکر وشغل بتایا جس کو سالک پورا نہ کرسکے کسی کو ذکر بالجہر بتلاتے کسی کو وظیفہ کسی کو نوافل اور کسی کو ان سبھوں کی پابندی ، مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں:
’’میرے علم میں آپ کا کوئی خادم بھی ایسا نہیں جسے آپ نے متقدمین کے موافق چوبیس ہزار دفعہ ذکر اسم ذات تلقین فرمایا ہو آپ زیادہ تر اول ذکر نفی واثبات اور اس کے ساتھ دو ہزار یا تین ہزار یا چھ ہزار جیسی بھی سالک کی طبیعت اور اس کی فرصت وگنجائش دیکھتے ذکر اسم ذات بتلاتے اور بعض کو صرف چار سو مرتبہ ذکر لا الہ الا اللہ کی تعلیم پر اکتفا فرماتے البتہ دو باتوں کی بہت تاکید فرمایا کرتے ایک یہ کہ ذکر میں عجلت نہ ہو بلکہ پورے اطمینان اور شوق کے ساتھ پورا کیاجائے، دوم مواظبت اور پابندی ہو کہ کسی حال میں ترک نہ کیاجائے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۴۱۵)
حضرت مولانا ذکر بالجہر کی تعلیم جب دیتے تھے تو ایسی درمیانی آواز سے ذکر کرنے کو فرماتے کہ سونے اور سننے والوں کو تکلیف نہ ہو لیکن بعض سالکین کو آزاد بھی کردیتے تھے اس لئے کہ آپ کے نزدیک اس سالک کی ترقی اور فائدہ بھی اس میں مضمر ہوتا کہ وہ قوت کے ساتھ ذکر کرے چنانچہ حافظ فخر الدین صاحب کو ہدایت فرمائی:
’’اذکار میں آواز متوسط بلند ہوناچاہئے مگر ضرب قوت کے ساتھ ہو اور اگر ذوق وشوق میں آواز زیادہ بلند ہوجائے تو مضائقہ نہیں۔‘‘
اگر کوئی شخص طبعا ذکر بالجہر سے گھبراتا اور وہ عرض کرتا کہ ذکر بالجہر سے حجات آتاہے تو آپ فرماتے:
’’کہ بھائی یہ شیطانی وسوسہ ہے اس کو بتعوذ دفع کرو اور ہمت کے ساتھ اپنے کام میں لگو۔‘‘
حضرت مولانا کے نزدیک ذکر باوضو ہوناچاہئے بلکہ سالک کو ہر وقت باوضو رہنا چاہئے آپ ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ ذکر کرنے والے کو خوب ٹھہر کر ذکر کرنا چاہئے آخر شب میں اٹھنے کا اہتمام ضروری ہے کہ سلوک کا یہی پہلا زینہ ہے کسل وسستی کو پاس نہ آنے دیاجائے ہمت کو بلند رکھنا چاہئے جن مریدوں کو آپ ہونہار دیکھتے ان کی طرف خاص توجہ فرماتے۔ محبت شیخ کو بھی سالکین کے لئے ضروری قرار دیتے تھے کہ اس سے ترقی ہوتی ہے اور مرید اپنے شیخ کے رنگ میں رنگ جاتاہے جس کا اشارہ بھی حدیث شریف میں المرء مع من احب میں آیاہے، آپ محبت اور تعلق کو مرید کے دل میں پیدا کرنے اوربڑھانے کی برابر کوشش فرماتے اور خاص طور پر حکم دیتے کہ منتسبین اپنے شیخ سے ملنا جلنا بڑھائیں خطوط کے ذریعے اپنے حالات کی اطلاع کرتے رہیں تاکہ شیخ ان کی طرف برابر متوجہ رہے اور ان کی تعلیم وتربیت کو دھیان میں رکھے۔