التفات بھی نہیں ہوا کہ حضرت کی شفقتیں اس سے بہت زائد رہتی تھیں لیکن مدینہ پاک میں یہ ناکارہ تو دونوں وقت کھانے میں شریک ہوتا ہی تھا حضرت اقدس رائپوری نور اﷲ مرقدہٗ بھی بسا اوقات کھانے میں یا کسی دوسری چیز کے کھانے میں شرکت فرماتے حضرت رائپوری نے مجھے ارشاد فرمایا کہ تجھ پر بڑا رشک آتا ہے کہ جب حضرت کوئی چیز کھلانے کو مرحمت فرماتے ہیں تو پہلے اس چیز کو خوب گھورتے ہیں پھر مرحمت فرماتے ہیں کاش مجھے بھی اس قسمیّ القلب پر بھی کوئی اثر ہوجاتا ،مدینہ پاک کے قیام میں جب یہ ناکارہ بذل لکھا کرتا تھا اور صبح کی چائے کے بعد سے مسلسل چھ گھنٹے حضرت کی خدمت میں حاضری ہوتی تھی تو ایک مرتبہ یہ ناکارہ ’’ناپاک ‘‘سیہ کار بذل لکھتے ہوئے نہ معلوم کن کن اخراجات اور واہی تباہی خیالات میں مستغرق تھا،میرے حضرت قدس سرہ نے عبارت لکھواتے نہایت تیز و تند لہجہ میں ارشاد فرمایا ۔’’من بتو مشغول و تو باعمر وزید‘‘مجھے اب تک بھی وہ منظریادآجاتا کے اس ارشاد پر پسینہ پسینہ ہوگیا میرا کرتہ اور پاجامہ پسینہ کے اندر بھیگ گیا۔(آپ بیتی نمبر۵/۱۷)
غیرت و حمیت:
حضرت مولانا میں غیرت و حمیت کمال درجہ میں تھی وہ دین کے خلاف کیا ایک ادنیٰ سنت کے خلاف بھی نہ کوئی بات سن سکتے تھے نہ برداشت کرسکتے تھے بھاولپور کے قیام کے دوران سید چراغ شاہ کے ماتحت تھے وہ آپ سے اپنے عہدہ کی بڑائی کی بناء پر مذہبی چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے وہ مذہباً شیعہ تھے سنی علماء اور سنی عقائد کے خلاف بحث کرتے تھے حضرت مولانا کو ان کی بحث اتنی ناگوار گزری کہ استعفا دیدیا اور استعفا منظور نہ ہونے کی صورت میں ان سے رابطہ اور تعلق منقطع کرلیا،اسی طرح اہل بدعت سے مناظرہ اور خلاف شریعت امور میں مقابلہ کیا اور کرتے رہے۔
دوسری غیرت و حمیت کی صفت آپ میں یہ تھی کہ کسی کو بغیر اس کے دریافت کئے ہوئے سلوک و معرفت کی بات نہ بتاتے آپ کی خواہش رہتی کہ لوگوں میں طلب پیدا ہو اور دین کی قدر ہو ،دین کی ناقدری اور بے التفا تی آپ کو پسند نہ تھی ،اس سلسلہ کی غیرت و حمیت کا ایک واقعہ حضرت شیخ الحدیث صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں۔
’’ایک مرتبہ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ مولوی عبداﷲ جان کو حضرت سے عشق تو ہے مگر یہ ذکر و شغل بالکل نہیں کرتے حضرت ان کو کچھ ذکر و تلقین فرمادیں حضرت نے فرمایا وہ پوچھیں تو بتلاؤں ؟میں نے عرض کیا کہ حضرت پوچھنے کی کیا بات ہے جب وہ اپنے کو حضرت کے سپرد کر چکے ہیں محبت بھی نہایت ہے،حضرت نے فرمایا وہ پوچھیں جب ہی تو بغیر پوچھے میں کیوں بتلاؤں میں نے عرض کیا کہ میں کچھ لکھ دوں حضرت قدس سرہٗ نے فرمایا اپنی طرف سے جو چاہے لکھ دیجئیو ،میری طرف سے کچھ نہیں ،میں نے عرض کیا حضرت میرے لکھنے سے کیا ہوتا ہے،اسی زمانے میں حضرت اقدس رائے پوری نور اﷲ مرقدہ بھی مدینہ پاک میں تشریف رکھتے تھے اور عصر کے بعد مغرب تک حضرت قدس سرہ کی مجلس میں خادمانہ تشریف رکھتے تھے ،حضرت رائیپوری کے ساتھ بھی دس بارہ خادم ہمراہ تھے ایک مرتبہ حضرت رائیپوری نے میرے حضرت سے بطور معذرت کے عرض کیا کہ حضرت ایسی بے حسی کا زمانہ ہے کہ اول تو ان لوگوں کو خود ہی احساس ہوناچاہیے تھا کہ جب میں خادمانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں تو ان کو بھی حاضر