غائب ہوگئے اس کے علاوہ مولوی دیدار علی الوری نے آپ کو سفر حج کے لئے جہاز پر سوار ہوتے ہوئے اس خیال سے دعوت مناظرہ دی کہ آپ جہاز نہ چھوڑیں گے اور مناظرہ کا میدان ہمارے ہاتھ رہے گا آپ نے جہاز چھوڑدیا اور مناظرہ کو منظور کرلیا فریق مخالف آپ کے اس طرح عمل کرنے سے افسردہ خاطر ہوا اور مناظرہ نہ ہوسکا امروہہ میں شیعوں کی طرف سے دعوت مناظرہ دی گئی اور انجام کار فریق مخالف ہی میدان چھوڑ بیٹھا ، اس کے علاوہ قادیانیوں سے بھی آپ نے مناظرہ کیا اور اس میں بھی آپ کی تحریر وتقریر نے کامیابی دی:
مناظرہ کے متعلق یہ چند باتیں نشاندہی کے طور پر پیش کی گئیں۔
رجوع عام وقبولیت تام:
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالیٰ کے وصال کے بعد آپ کی طرف رجوع عام ہوا، عوام سے لے کر خواص تک ملازمین سے لے کر علماء تک آپ کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلسلہ عالیہ کو جو قبولیت عطا فرمائی وہ کم ہی کسی کے سلسلہ میں آئی، حضرت مولاناکے دس خلفاء اور مجازین تھے جن میں اگر صرف دو ہی خلفاء اور مجازین کے نام لیے جائیں تو اس سلسلہ کی وسعت اور ہمہ گیری کے لئے کافی ہے ان میں ایک مولانا محمد الیاس صاحب نوراللہ مرقدہ کہ جن کی تبلیغی اور اصلاحی تحریک اس وقت دنیا کے تقریبا ہر حصہ میں پھیلی ہوئی ہے اور مولانا اور ان کے خلفاء کے ذریعہ عمومی اصلاح جو ہوئی اور ہورہی ہے وہ بے مثال ہے، دوسرے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی جن کے مریدین ومنتسبین کی کثرت اور ان کے ذریعہ اس سلسلہ میں داخل ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے جو لاکھوں سے بڑھ چکی ہے اس دور میں اتنی زیادہ تعداد میں منتسبین اور کہیں نہیں ملتے۔
بہرحال حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے سلسلہ کوجو قبولیت عام حاصل ہوئی ہے اور اس سے جو مبارک اورمفید نتائج برآمد ہوئے ہیں اور اتباع سنت، زہد وتقویٰ اور تعلق مع اللہ کی ایسی بہار آئی ہے کہ شاید باید۔
مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی آپ کی طرف رجوع عام کے متعلق لکھتے ہیں:
’’عوام سے زیادہ آپ کی طرف علماء اور اہل ذوق کا رجوع ہوا کہ اس جماعت کے ایک شخص کی اصلاح گویا ہزاران ہزار کی اصلاح تھی۔‘‘
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’جہاں تک مجھے علم ہے اطراف ہند میں حضرت کے منتسبین بڑی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں اور آخر زمانہ میں تو اتنارجوع بڑھا کہ ایک دفعہ میں کئی کئی کو آپ نے اس طرح بیعت کیا کہ عمامہ دور تک پھیلادیا اور طالبین اس کو پکڑتے چلے گئے جو سفر بھی آپ کا ہوا جہاں آپ نے دینی مدارس کی بقاء اور زائرین میں تعلیم دین کا نفع اس سے اٹھایا وہیں سلسلہ روحانیہ کی تخم ریزی بھی فرمائی اور بدعت ومعاصی سے توبہ کراکے اتباع سنت پر جمے رہنے کا عہد لیا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۴۶۷)